پاکستانی ڈش برمنگھم کے اسکولوں کے نصاب میں شامل

اس اقدام کا بنیادی مقصد نوجوانوں کے لیے برمنگھم میں روزگار کا مواقع فراہم کرنا اور مقامی ریسٹورنٹس میں ہنرمندوں کی قلت کو دور کرنا ہے ۔

پردیس میں دیسی کھانوں کی مقبولیت اورپزیرائی کی ایک خبر یہ ہےکہ، پاکستانی کھانے برمنگھم کے سرکاری اسکولوں کے نصاب میں شامل کئے گئے ہیں ۔ اسکول میٹرک پاس کرنے والے طالب علموں کو تعلیمی سند کےساتھ ساتھ بالٹی کری اسپیشلسٹ کا سرٹیفیکیٹ بھی جاری کرے گا۔

برطانوی روزنامےکےمطابق ،برمنگھم کی مقبول ترین ڈش' بالٹی کری ' برمنگھم بیکل اوریٹBBAC (میٹرک کی سند ) یاجی سی ایس سی پروگرام کا حصہ بنائی گئی ہے ۔ ابتداء میں دس سکینڈری اسکولوں میں پائلٹ پروگرام متعارف کرایاجا رہا ہے جہاں میٹرک کےطالب علموں کوبالٹی کری بنانےکی ترکیب اورانڈین ، پاکستانی شیف سے تربیت فراہم کی جائے گی ۔


بتایا گیا ہے کہ، اسکولوں کے فرسٹ ٹرم (ستمبر) کےآغازسے اساتذہ نہ صرف بالٹی کری پکانا سکھائیں گے بلکہ طالب علموں کوڈیجیٹل اسٹوریج،لائف سائنس اور میزبانی سےمتعلق ہنرمندی بھی سیکھائیں گے۔اس اقدام کا بنیادی مقصد نوجوانوں کے لیے برمنگھم میں روزگار کے مواقع فراہم کرنا اور مقامی ریسٹورنٹس میں ہنرمندوں کی قلت کو دور کرنا ہے ۔

ایک پرانے اورمشہورپاکستانی ریسٹورنٹ کے مالک مطلوب حسین اوران کے بھائی ظفرحسین جو برمنگھم بیکل اوریٹ پروگرام میں معاونت فراہم کر رہے ہیں انھوں نے وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ، پاکستانی کھانوں کا اسکولوں کےنصاب میں شامل ہونا ایک بہت ہی خوش آئند قدم ہے۔ پہلی بارنویں دسویں جماعت کےایک اختیاری مضمون 'فوڈ اینڈ ٹیکنالوجی ' کےاسباق میں پاکستانی کھانوں کو شامل کیا گیا ہے۔اس کےعلاوہ جن بچوں کے مضامین میں فوڈ اینڈ ٹیکنالوجی شامل نہیں ہو گا وہ بھی پاکستانی کوکنگ کو ایک شارٹ کورس کی صورت میں سیکھ سکیں گےکورس مکمل کرنے والے طالب علموں کواسکول سرٹیفیکٹ جاری کرے گا۔



ظفرنے پروگرام میں اپنی شمولیت کے بارے میں بتایا کہ ، وہ خود بھی ایک شیف ہیں لیکن وقت کی کمی کے باعث وہ تمام اسکولوں میں جا کراساتذہ کی مدد نہیں کرپائیں گے لہذا ابتدائی کوکنگ کلاسوں میں ان کی ویڈیو فلم چلائی جائے گی ۔

ظفر نے بالٹی کری پروگرام کے حوالے سے بتایا کہ ،کچھ عرصہ پہلے 'اسکیل فاربرمنگھم ' ادارے نےبرمنگھم میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے اسباب جانے کےحوالے سےایک تحقیق کی تھی ۔

اس میٹنگ کے دوران ہرچھوٹے بڑے ریسٹورنٹ کےمالکان نےمقامی آبادی میں انڈین اور پاکستانی کوکنگ کےحوالے سے ہنرمند افراد کی قلت کے مسئلے کو اٹھایا اوردوسری جانب امیگریشن قوانین کی سختی کے باعث بیرون ملک سےہنرمند ملازمین بلوانےسےمتعلق مشکلات کےبارےمیں آگاہ کیا ۔ مالکان کا کہنا تھا کہ ،یہ مسئلہ کافی گھمبیرصورت اختیار کرتا جارہا ہے اور انھیں ڈر ہے کہ ، مستقبل میں برسوں سےجمے جمائے کاروبارکو قائم ودائم رکھنا اور پرکھوں کی نشانی 'بالٹی لیگیسی' کو زندہ رکھنا مشکل ہوسکتا ہے۔

لہذا اس مسئلے کے حل کے لیےبرمنگھم سٹی کونسل، بالٹی آرگنائزیشن، برمنگھم بیکل اوریٹ پروگرام کے عہدیدار اور چند مقامی کاروباری افراد کے مالی تعاون سے نوجوانوں کو انڈین پاکستانی کھانے پکانے کی مہارت اور ہنر مندی سیکھانے کے لیے اسکولوں کی سطح پر ایک پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔


ظفر کا کہنا تھا کہ ،برمنگھم کا ایشین بازارجو 'بالٹی ٹرائی اینگل ' کے نام سے مشہور ہے روزگار کے اعتبار سے ایک بڑا سیکٹر سمجھا جاتا ہے۔برمنگھم کے نقشے پر (تکون) شکل میں نظرآنے والے بازار کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ ،تقریبا نصف صدی پہلے اسی علاقے میں پاکستانی ریسٹورنٹ کھولے گئے تھے۔ 90کی دہائی میں یہ علاقہ انڈین پاکستانی ریسٹورنٹس کا مرکزکہلانے لگا جہاں کی مشہوراور لذیذ ڈش بالٹی کری ہوا کرتی تھی اس وقت شاید کوئی اس بات کا اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ ، ایک دن یہ ڈش برمنگھم کی 'سگنیچر' ڈش کہلائی گی۔

ظفر کا کہنا تھا کہ ، ٹماٹر، ہری مرچیں ، ہرا دھنیا اور روایتی مصالحوں کے ساتھ تیار کی جانے والی بالٹی کری کی مقبولیت میں ذائقے کے ساتھ پیش کرنے کا منفرد طریقہ بھی شامل ہے ۔ بالٹی کری جس کڑاہی میں پکائی جاتی ہے اسی کڑاہی میں پیش کی جاتی ہے اوراسی کڑاہی میں اسے کھایا جاتا ہے۔ بالٹی کری کھانے کے لیے پلیٹیں استعمال نہیں کی جاتیں بلکہ روٹی یا چاول بالٹی کری میں ڈال کر کھاتے ہیں "یقین کریں کہ ،گورے بہت خوشی سےاسی کڑاہی میں کھاتے ہیں لیکن ہمارے اپنے اکثر اعتراض کرتے ہیں اور پلیٹیں مانگتے ہیں ۔"



بالٹی کری کے نام پر کھائی جانے والی ڈشوں کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ، "اپنے بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ ، بالٹی کری کا اصل گھر پاکستان کا شمالی علاقہ بلتستان ہے جہاں اسے بالتی کہا جاتا ہے لیکن برمنگھم میں بالٹی کری ڈش میں بالٹی ساگ، بالٹی گوشت سے لے کر باربی کیو چکن بالٹی جیسی درجنوں ڈشیں شامل ہیں۔"

بالٹی پروگرام کی کامیابی کے حوالے سے وہ خاصے پر امید نظر آئے اور کہا کہ، انڈین ،پاکستانی کھانے پکانے میں دلچسپی پیدا کرنے کا مقصد نوجوانوں کو اس ہنرسے آشنا بنانا ہے جس کی حقیقی دنیا میں انھیں ضرورت پڑ سکتی ہے ۔