بھارت میں برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ترجمان نوپور شرما کے مبینہ توہینِ اسلام اور اشتعال انگیز بیان سے خود کو الگ کر لیا ہے اور ان کو پارٹی کی بنیادی رکنیت سے معطل کر دیا ہے۔
علاوہ ازیں پارٹی کے میڈیا انچارج نوین کما رجندل کو بھی معطل کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے بھی دو روز قبل مبینہ قابل اعتراض بیان دیا تھا۔
بی جے پی کی مرکزی تادیبی کمیٹی کے رکن سیکریٹری اوم پاٹھک نے نوپور شرما کے نام جاری خط میں کہا ہے کہ انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا تھا وہ پارٹی کے مؤقف کے برعکس ہیں۔ لہٰذا انہیں فوری طور پر پارٹی کی رکنیت سے معطل کیا جا رہا ہے۔
بی جے پی نوپور شرما، نشریاتی ادارے ’ٹائمز ناؤ‘ اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کو قانونی نوٹس بھیجنے والے ’مسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیا‘ کے صدر ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے اس قدم کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ نوپور شرما کے خلاف ملکی قوانین کے مطابق کارروائی بھی کی جانی چاہیے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کا فیصلہ نامکمل ہے۔ نوپور کے خلاف کئی مقدمے درج ہو چکے ہیں۔ لہٰذا انہیں جلد از جلد گرفتار کیا جانا چاہیے اور بی جے پی کو دنیا بھر کے مسلمانوں سے غیر مشروط معافی مانگنا چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
نشریاتی ادارے ’ٹائمز ناؤ‘ پر گیان واپی مسجد کے سلسلے میں ہونے والی بحث کے دوران ڈاکٹر تسلیم رحمانی بھی پینل میں موجود تھے اور انہوں نے قابلِ اعتراض بیان کے بعد خود کو بحث سے الگ کر لیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو جو قانونی نوٹس بھیجا گیا ہے، اس کی زبان بہت سخت ہے اور اس کی روشنی میں بی جے پی کو یہ سمجھ میں آگیا ہے کہ اس کے لیے مشکل پیدا ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ عوامی نمائندگی ایکٹ کے مطابق کوئی بھی پارٹی مذہبی علامتوں کا استعمال نہیں کر سکتی اور کسی بھی مذہب کے خلاف توہین آمیز بیان نہیں دے سکتی۔
ڈاکٹر تسلیم رحمانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ معاملہ اگر عدالت میں گیا تو بی جے پی کی بحیثیت سیاسی جماعت رجسٹریشن ختم ہو سکتی ہے۔
ان کے مطابق ابھی الیکشن کمیشن کا کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ وہ 15 روز تک انتظار کریں گے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔
ادھر بی جے پی نے ایک بیان جاری کرکے خود کو مذکورہ متنازع بیان سے الگ کر لیا ہے۔
پارٹی کے جنرل سیکریٹری ارون سنگھ نے ایک بیان میں کہا کہ بی جے پی تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے۔ وہ کسی بھی مذہب کی شخصیات کی توہین کی سختی سے مذمت کرتی ہے۔ وہ ایسے افراد اور نظریے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔
بیان کے مطابق بھارت کی ہزاروں سال کی تاریخ میں ہر مذہب کو فروغ حاصل ہوا۔ بھار ت کا آئین ہر شہری کو اپنے مذہب پر چلنے کا حق دیتا ہے اور ہر مذہب کا احترام کرتا ہے۔
کان پور میں احتجاج، 36 افراد گرفتار
نوپور شرما کے بیان پر اترپردیش کے شہر کان پور میں جمعے کو ہونے والے احتجاج کے دوران تشدد ہوا۔ جس میں متعدد پولیس اہل کاروں سمیت تقریباً 40 افراد زخمی ہو گئے۔
پولیس نے اس سلسلے میں تین ایف آئی آرز درج کی ہیں اور 36 افراد کو گرفتار کیا ہے۔
کان پور کی ایک تنظیم مولانا محمد علی جوہر فینز ایسوسی ایشن کی جانب سے تین جون کو کان پور میں احتجاج کی کال دی گئی تھی۔
پولیس کے مطابق مسلمانوں کی جانب سے دکانیں بند کرانے کی کوشش کی گئی جب کہ دوسرے لوگوں نے مخالفت کی۔
اس پر تشدد ہوا اور دونوں طرف سے پتھراؤ کیا گیا اور پیٹرول بم پھینکے گئے۔
دوسری طرف مسلمانوں کا کہنا ہے کہ تشدد کا آغاز دوسرے طبقے کے لوگوں نے کیا لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔
ان کا الزام ہے کہ پولیس یک طرفہ کارروائی کر رہی ہے۔
پولیس کے مطابق تشدد کے سلسلے میں 24 افراد کو گرفتار اور 12 کو حراست میں لیا ہے۔
گرفتار شدگان میں مولانا محمد علی جوہر فینز ایسو سی ایشن کے صدر ظفر حیات ہاشمی بھی شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق وہ تشدد کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ملزمان کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ اور گینگسٹر ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
رپورٹس کے مطابق پولیس کے اس اعلان کے بعد کہ ملزمان کی املاک کو ضبط کیا جائے گا یا منہدم کر دیا جائے گا جس کے بعد مقامی رہائشیوں میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا ہے۔
کان پور کے پولیس کمشنر وی ایس مینا کے مطابق پولیس اس معاملے میں کیرالہ کی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) اور دیگر تنظیموں کے کردار کی جانچ کر رہی ہے۔
ایڈیشنل کمشنر آف پولیس (لا اینڈ آرڈر) آنند پرکاش تیواری کے مطابق متاثرہ علاقوں میں امن ہے اور حالات پر 24 گھنٹے نظر رکھی جا رہی ہے۔
ظفر حیات ہاشمی کے اہلِ خانہ نے پولیس کے الزام کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ پولیس انہیں پھنسا رہی ہے۔ تشدد میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعے کو تشدد کے دوران مفاہمت کرانے کی کوشش کرنے والے قاضی شہر حافظ عبد القدوس کے ساتھ مار پیٹ اور موبائل چھیننے کا واقعہ پیش آیا تھا۔
کان پور کے سرکردہ مسلمانوں کی جانب سے اس سلسلے کے ویڈیو فوٹیج پولیس کو دی جائیں گی۔
بریلی میں دفعہ 144 نافذ
اسی دوران اترپردیش کے شہر بریلی میں ایک مسلم مذہبی رہنما مولانا توقیر رضا خان کے 10 جون کو توہینِ اسلام کے خلاف احتجاج کے اعلان کے بعد انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔
پولیس کے مطابق وہاں کسی مقام پر پانچ افراد سے زیادہ بیک وقت اکٹھا نہیں ہو سکتے۔
انتظامیہ نے پوسٹر چسپاں کرنے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
کسی بھی ناخوش گوار واقعے کو روکنے کے لیے 3 جولائی تک دفعہ 144 نافذ رہے گی۔