ڈیمو کریٹک پارٹی کے سیاہ فام امیدوار ایرک ایڈمز نے نیویارک کے میئر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے انتخابی مہم میں عوام کی حفاظت اور متوسط طبقے کی آواز بننے کے وعدے کیے تھے۔ وہ پولیس افسر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں جب کہ نوجوانی میں ان کو پولیس کے تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔
ایرک ایڈمز 2014 سے بروکلن کی بلدیہ کے صدر ہیں۔ مختلف میڈیا کے اداروں کے اندازوں میں ان کی کامیابی کی پہلے کی نشان دہی کر دی گئی تھی۔
ایڈمز نے انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے کرٹس سلیوا کو شکست دی ہے جو کہ گارڈین اینجلز کے بانی بھی ہیں۔ یہ ایک غیر مسلح تنظیم ہے جس کا مقصد جرائم کی روک تھام ہے۔
نیو یارک کے نو منتخب 61 سالہ میئر ایرک ایڈمز جنوری میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ اس وقت تک نیو یارک کے موجودہ ڈیمو کریٹک میئر بیل ڈی بلازیو خدمات انجام دیتے رہیں گے۔ وہ جنوری 2014 سے نیو یارک کے میئر ہیں اور دو دفعہ چار چار برس تک میئر رہنے کے بعد قانونی طور پر تیسری بار منتخب نہیں ہو سکتے تھے۔
نیو یارک کے نئے میئر کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا ہو گا۔ ان میں امریکہ کے سب سے بڑے شہر میں کرونا وائرس سے نمٹنے کے اقدامات اور وبا کے بعد کی صورتِ حال، مالی عدم استحکام، شہریوں کے لیے سستی رہائش کے منصوبے اور سرکاری اسکولوں کے معاملات شامل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ جولائی میں جب ایرک ایڈمز کو ڈیمو کریٹک پارٹی نے امیدوار نامزد کیا تھا تو اس وقت ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے لیے وقت ہے کہ ہم اس بار پر یقین کرنا چھوڑ دیں کہ ہمیں ٹوئٹ کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ بلکہ ہمیں یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ ہماری گلیاں محفوظ ہوں۔
خیال رہے کہ مئی 2020 میں میناپولس میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی پولیس کی تحویل میں ہلاکت کے بعد سے ڈیموکریٹک پارٹی نے پولیس اور اس کے نظام میں اصلاحات پر بہت زیادہ بات کی ہے۔ گزشتہ برس سیاہ فام جارج فلائیڈ کی موت کے بعد احتجاج کی لہر نے جنم لیا تھا اور کئی ماہ تک امریکہ کی کئی ریاستوں میں وقتاََ فوقتاََ بڑے مظاہرے اور احتجاج ہوئے تھے۔ جب کہ اس پوری تحریک سے ’بلیک لائیوز میٹر‘ کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔
دوسری جانب جرائم میں اضافے کے باعث میئر کے امیدواروں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ پولیس اور امن عامہ کے معاملے پر مزید اخراجات کریں تاکہ عوام کا تحفظ یقینی ہو۔
ایرک ایڈمز کے مطابق نیو یارک شہر میں بھرپور معاشی سرگرمیاں اس وقت تک بحال نہیں ہو سکتیں جب تک یہاں ہونے والے پر تشدد واقعات کے معاملات سے نہ نمٹا جائے۔
وہ بائیں بازو کی اس مہم کو بھی رد کر چکے ہیں جس میں مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ پولیس کی مالی مدد اور فنڈ روک دینے چاہیے۔
انہوں نے اس کا حل یہ پیش کیا تھا کہ پولیس کے کام کے جارحانہ طریقۂ کار کو متوازن کرنے کی ضروت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اصلاحات اور پولیس ڈپارٹمنٹ میں اعلیٰ سطح پر متناسب نمائندگی کے ساتھ افسران کا تقرر کرنا ضروری ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
نو منتخب میئر ایرک ایڈمز کی اپنی کہانی بھی اس معاملے میں ان کی مدد کرتی ہے۔ وہ بتا چکے ہیں جب ان کی عمر کم تھی اس وقت پولیس افسران نے ان پر تشدد کیا تھا۔
بعد ازاں جب ایرک ایڈمز پولیس میں شامل ہوئے تو وہ نیو یارک کے پولیس ڈپارٹمنٹ میں ’بلیکس ان لا انفورسمنٹ ہو کیئر‘ کے نام سے بننے والی انجمن کے بانیوں میں شامل تھے جس سے ان کی شہرت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا۔ اس تنظیم کا مقصد پولیس کے ایسے جارحانہ اقدامات پر آواز اٹھانا تھا جس میں تشدد کا عنصر شامل ہو۔