ریاست ایلی نوای کے سابق گورنر راڈ بلاگووِچ پر بدعنوانیوں اور رشوت ستانی کے جو21 الزامات تھے اُن میں سے اُنھیں 18کا قصوروار پایا گیا ہے، جِن میں یہ بھی شامل ہے کہ اُنھوں نے امریکی سینیٹ کی وہ نشست فروخت کرنے کی کوشش کی تھی جو براک اوباما کے صدر بننے کے بعد خالی ہوگئی تھی۔
جو الزامات بلاگووِچ پر عدالت میں ثابت ہوچکے ہیں اُن کی پاداش میں ملنے والی سزا کا دورانیہ تین سو سال تک ہوسکتا ہے۔
لیکن، ’شکاگو ٹربیون ‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ یہ پیش گوئی وثوق کے ساتھ کی جاسکتی ہے کہ بلاگووِچ کو پورےتین سو سال کی سزا تو نہیں ہوگی، لیکن اخبار نے اِس امید کا اظہار کیا ہے کہ جج جیمز زیگل سابق گورنر کو سزا دیتے وقت شکاگو کے ایک اور ڈسٹرکٹ جج روبن کسٹیلو کے اِس فیصلے کو ملحوظِ نظر رکھیں گے جو اُنھوں نے رشوت ستانی کے ایک اور مقدمے میں دیا تھا۔ اُنھوں نے کہا تھا کہ عوام کو رشوت ستانی کی لعنت سے نجات دلانے اور قانون کی حکمرانی کو تقویت پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت میں بیٹھ کر ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو اُسی طرح کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیئے جیسا عام جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
موٹر سازی کے امریکی مرکز ڈٹرائٹ کےایک مقامی اخبار ’ڈٹرائیٹ نیوز‘ کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ ستمبر میں اعلان کرنے والی ہے جِس کےمطابق کاروں میں کم ایندھن کی مدد سے زیادہ مسافت طے کرنے کے نئے معیار قائم ہوں گے۔
لیکن، کاریں بنانے والی مقامی کمپنیوں کے ساتھ حالیہ اجلاسوں کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ انتظامیہ کا نصب العین یہ ہوگا کہ 2025ء تک کاریں اور ہلکے ٹرک ایسے ہوں کہ فی گیلن 56میل سے زیادہ کی مسافت طےکرسکیں جو موجودہ معیار 30میل سے کہیں زیادہ ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس مقامی اورغیرملکی کار بنانے والوں سے مزید ملاقاتیں کرنے والا ہے اور یہ اعدادو شمار ستمبر سے پہلے بدل سکتے ہیں۔
اِن اطلاعات کے مطابق، ابتدائی تجویز یہ تھی کہ کار بنانے والوں کو 2017ء اور 2026ء کے درمیانی عرصے میں ہرسال پانچ پانچ میل کا اضافہ کرنا ہوگا۔
اگر فی گیلن سے 65اعشاریہ دو میل کا معیار مقرر ہوا تو اِس سے نئی کاروں کی قیمت میں 2100سے لے کر 2600ڈالر کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ لیکن، اس کے برعکس صارفین ڈھائی سال کا ر چلا چکیں گے تو اُن کی یہ فالتو لاگت واپس مِل چکی ہوگی۔
اخبار ’سی اےٹل ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، چینی کمیونسٹ پارٹی میں اپنی 90ویں سالگرہ پر شادیانے کی تقریبات کے ساتھ ساتھ یہ تند و تیز بحث جاری ہے کہ آیا حکومت کو احیا کے عمل کو برقرار رکھنے کے لیے اُس کی سمت میں کوئی بڑی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
اِس بحث کے ایک طرف وہ ہیں جو حکومت کو زیادہ جمہوری بنانے کے حق میں ہیں اور دوسری طرف وہ جو زیادہ مساویانہ لیکن بااختیار نظام کے حق میں ہیں اور جنھیں ’نیو لیفٹ‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔اور اِسی اختلاف کی تُندی میں جمعے کو سالگرہ کے قریب آنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔
کرپشن اور امیر و غریب کے درمیان خلیج بڑھ جانے سے معاشرتی تناؤ بڑھ رہا ہے اور یہ بحث چل رہی ہے کہ اصلاحات اور سرکاری کنٹرول اور سرمایہ داری کے جِس ملے جلے مرکّب سے چین غربت کی پستی سے ایک عالمی طاقت کی بُلندی تک پہنچ گیا وہ اب اپنی افادیت کھو چکا ہے اور اِس کے نتیجے میں ایک نیا طاقت ور طبقہ اُبھر آیا ہے، جب کہ باقی لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: