امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے بدھ کے روز محتاط انداز میں امید ظاہر کی ہے کہ امریکہ ، غزہ کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک نئی قرارداد کی حمایت کرنے کے قابل ہو گا۔ جس میں امداد تک رسائی کا سوال ایک مشکل مرحلہ ہو گا۔
اسرائیل کے اہم اتحادی امریکہ نے سلامتی کونسل میں دو قراردادوں کو ویٹو کیا ہے اور اس نے اسرائیل سے ،سات اکتوبر کے حماس کے حملے کے جواب میں شروع کی گئی فوجی مہم کو ختم کرنے کے مطالبے کو بھی مسترد کر دیا تھا۔
وہ سال کے آخر میں ہونے والی نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
SEE ALSO: روس اور عرب لیگ کا اقوامِ متحدہ سے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ کے لیے اشد ضروری امداد سےمتعلق ایک نئی قرارداد پر ووٹنگ کو ایک بار پھر مؤخر کردیا ہے کیونکہ بائیڈن انتظامیہ امریکی ویٹو سے بچنے کے لیے اعلیٰ سطحی مذاکرات میں کلیدی الفاظ کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اب ووٹنگ جمعرات کی صبح متوقع ہے۔
امریکی وزیر خارجہ بلنکن نےواشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ویٹو پر عرب دنیا میں غصے کے بعد امریکہ انتہائی نیک نیتی کے ساتھ دوسرے ملکوں سے بات کر رہا ہے۔ ہم اس پر بھرپور طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ اور انہوں نے کہا کہ میں گزشتہ چند روز سے اس بارے میں ٹیلیفون پر مصروف ہوں۔ اور مجھے امید ہے کہ ہم درست مقام پر پہنچ سکیں گے۔
متحدہ عرب امارات کی قیادت میں تیار ہونے والے مسودہ قرارداد میں لفظ جنگ بندی کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے اسکی بجائے غزہ کی محصور پٹی تک انسانی رسائی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جہاں کی پچاسی فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ قرار داد کے متن میں اسرائیل۔ حماس جنگ میں لڑائی کے خاتمے کے متن کے حوالہ جات کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جب کہ وہ اس متن کے کچھ ایسے حصوں کو بھی تبدیل کرنے کے لیےکوشاں ہے جس میں اقوام متحدہ کو امداد ی ٹرکوں کے معائنے کا انچارج بنانے کےلیے کہا گیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان میں واقعی انسانی ہمدردی کی امداد لے جائی جا رہی ہے ، جس کی اسرائیل مخالفت کرتا ہے۔
بلنکن نے کہا انسانی مسئلہ رکاوٹ بنتا ہے کیونکہ اسرائیل کا اصرار ہے کہ گھرے ہوئے فلسطینی علاقوں میں داخل ہونے والی سپلائیز پر اسکا مکمل کنٹرول ہو گا۔
جن ملکوں نے یہ قرارداد پیش کی ہے انکا مقصد یہ ہے کہ غزہ کے لئے انسانی بنیاد پر امداد کی ترسیل میں سہولت پیدا کی جائے اور اس امداد کو وسیع کرنے میں مدد دی جائے۔ اور بلنکن نے کہا کہ ہم اسکی پوری طرح حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ اس قرارداد میں جس چیز کے لئے کہا گیا ہے اور جس کی در حقیقت ضرورت ہے، اس کوشش کو آگے بڑھایا جائے۔ اور ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جس سے انسانی امداد کی فراہمی کو در حقیقت نقصان پہنچے یا وہ اسے مزید پیچیدہ بنادے۔
بلنکن نے کہا امریکہ نے حالیہ دنوں میں اپنی سفارت کاری کے ذریعے پیش رفت کی ہے جس میں تجارتی ٹرکوں کی آمد اور غزہ میں دوسری کراسنگ کا کھولا جانا بھی شامل ہے۔
SEE ALSO: روس اور عرب لیگ کا اقوامِ متحدہ سے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہاسرائیل کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اے ایف پی کا کہنا ہے کہ حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل میں گھس کر تقریباً 1,140 افراد کو ہلاک کیا، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
اسرائیل نے ایک مسلسل فضائی اور زمینی مہم کے ساتھ جواب دیا۔ غزہ کی پٹی میں حماس حکومت کے میڈیا آفس نے بدھ کو بتایا کہ کم از کم 20,000 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں 8,000 بچے اور 6,200 خواتین شامل ہیں۔
بلنکن نے اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہ امریکہ اسرائیل کی حمایت میں الگ تھلگ ہو گیا ہے، اسرائیل سے دوبارہ مطالبہ کیا کہ وہ شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کرے لیکن کہا کہ حماس پر دباؤ ڈالنے کی بھی ضرورت ہے۔
بلنکن نے کہا، گزشتہ چند ماہ انتہائی ناخوشگوار اور تکلیف دہ رہے ہیں۔ آپ غزہ میں مردوں، عورتوں اور خاص طور پر بچوں کی تکالیف اور مصائب دیکھ رہے ہیں۔یہ ہم میں سے ہر ایک کو متاثر کرتا ہے۔ یہ مجھ پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔
SEE ALSO: غزہ میں جنگ بندی کی کوششیں، حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کی مصر آمدلیکن بلنکن نے اس بات پرافسوس کا اظہار کیا جو بقول ان کےوہ خاموشی ہے جو اس حوالے سےپائی جاتی ہے کہ اگر ہم بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کی تکالیف کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو حماس اسکے لئےکیا کر سکتا ہے، اسے کیاکرنا چاہیے۔اگر دنیا اس تجویز پر اکھٹی ہو جائے تو یہ اچھا ہو گا۔
اور بلنکن نے ایسے میں یرغمالوں کو آزاد کرانے کے لئے جنگ میں ایک نئے وقفے کی امید کا اظہار کیا، جبکہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ بدھ کو بات چیت کے لیے قاہرہ پہنچے تھے۔
قطر نے امریکہ اور مصر کی مدد سے گزشتہ ماہ کے آخر میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جو جنگ بندی کرائی تھی اسکے دوران اسرائیلی جیلوں میں قید 240 فلسطینیوں کے بدلے 80 اسرائیلی یرغمالوں کو رہا کر دیا گیا۔
اس رپورٹ کے لئے مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔