امریکہ نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی میں اسرائیلی حملوں سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والے زیادہ سے زیادہ فلسطینی شہریوں کا تحفظ کرنے کے اپنے ارادے میں ناکام ہو رہی ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے سی این این ٹیلی ویژن کے پروگرام ’’اسٹیٹ آف دی یونین‘‘ میں کہا کہ شہریوں کی حفاظت کرنی ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایک ایسے وقت میں فلسطینی شہریوں کی حفاظت میں کوتاہی برت رہا ہے جب وہ بحیرہ روم کے ساتھ واقع ایک تنگ علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف اپنی کارروائی کر رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ تنازعہ آرائی کے دوران اوقات کا خیال کرنا ضروری ہے جس کے دوران غزہ کے لیے فلاحی امداد فراہم کی جائے اوراس مقصد کی خاطر ان علاقوں کے لیے ’’حد بندی کا تعین ‘‘ درکار ہے جہاں اسرائیل حملہ نہیں کرے گا تاکہ اس طرح شہری محفوظ رہتے ہوئے پناہ حاصل کر سکیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی منگل کو ایک ہنگامی اجلاس منعقد کرے گی تاکہ غزہ میں فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کے مسودے پر ووٹنگ کرائی جائے ۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ یہ سلامتی کونسل کی اس قرارداد ہی کی طرح ہے جسے امریکہ نے جمعے کے روز ویٹو کر دیا تھا۔
SEE ALSO: غزہ کی صورتِ حال پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس طلب، لڑائی بدستور جاریشدید لڑائی
اسرائیلی ٹینک 24گھنٹے کی شدید لڑائی کے بعد، اتوار کے روز جنوبی غزہ کی پٹی کے مرکزی شہر خان یونس کے مرکز میں داخل ہو گئے۔اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 250 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا جن میں سے کچھ خان یونس کے قریب جنوب میں تھےجبکہ شمال میں غزہ شہر کے شاجائیہ کے علاقے بھی ان اہداف میں شامل تھے۔
اسرائیلی فوج نے یہ بھی کہا کہ حماس کے درجنوں جنگجوؤں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے ساتھیوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی ہے کہ وہ بھی یہی راہ اپنا لیں ۔ تاہم، فلسطینی عسکریت پسند گروپ نے اس کی تردید کرتے ہوئے اس دعوے کو ’’جھوٹا اور بے بنیاد‘‘ قرار دیا۔
حماس کے عسکریت پسندوں نے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر ایک اچانک شدید حملے میں تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک کردیا اور تقریباً 240 افراد کو یرغمال بنا لیا۔ اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔امریکہ حماس کو دہشت گرد گروپ کے طور پر نامزد کر چکا ہے۔ غزہ پر 2007 سے حکومت کرنے والے گروپ حماس کے پاس اب بھی تقریباً 140 افراد یرغمال ہیں۔
حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ گزشتہ سات ہفتوں کے دوران اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں تقریباً 18,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
غزہ میں صحت کی صورتحال کے بارے میں عالمی ادارہ صحت کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس اتوار کے روز ہوا ۔
SEE ALSO: غزہ کی صورتِ حال پر عالمی ادارۂ صحت کا غیر معمولی ہنگامی اجلاسڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس گیبریئس نے غزہ میں صحت کی صورتحال کو ’’تباہ کن‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں بہتری لانا تقریباً ناممکن ہو گا۔
34 ارکان پر مشتمل بورڈ نے علاقے میں طبی رسائی کو محفوظ بنانے کے لیے ایک ہنگامی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کی۔فلسطینی حکام نے غزہ میں صحت کی تباہ کن صورتحال کے بارے میں بتایا جہاں اسرائیل کےحملوں نے بیشتر آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ لوگوں کے لئے بہت کم بجلی، خوراک یا صاف پانی میسر ہے جبکہ طبی نظام تباہی کا شکار ہے۔
ٹیڈروس نے کہا کہ مجھے واضح طور پر یہ بتانا چاہئیے کہ موجودہ حالات میں ان اہداف کا حصول تقریباً ناممکن ہے۔ انہوں نے اتفاق رائے پر ممالک کی تعریف کی اور کہا کہ تنازع شروع ہونے کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ مختلف ممالک ایک مشترکہ بنیاد پر متفق ہوئے ہیں ۔
یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ممکنہ آپشنز پر غور
یورپی یونین کے وزرائے خارجہ مشرق وسطیٰ کے بحران کے جواب میں ممکنہ آپشنز پر غور کررہے ہیں جس میں حماس کے مالیاتی نظام پر کریک ڈاؤن اور مغربی کنارے میں تشدد کے ذمہ دار اسرائیلی آباد کاروں پر سفری پابندیاں عائد کرنا شامل ہیں۔
برسلز میں آج پیر کے روز ہونے والے اجلاس میں بلاک کے 27 ممالک کے وزراء یوکرینی ہم منصب دیمیٹرو کولیبا سے بھی بات چیت کررہے ہیں کیونکہ اجلاس میں کیف کو مستقبل میں سیکیورٹی امداد پر تبادلہ خیال کرنا بھی شامل ہے۔
یورپی یونین کے حکام روس کے حملے کو پسپا کرنے میں یوکرین کی مدد کرنے پر زور دیتے ہیں جو ان کی اولین ترجیح ہے۔ تاہم اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے درمیان جنگ نے اس بلاک کو مشرق وسطیٰ پر از سر نو توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
SEE ALSO: امریکہ: اسرائیل اور یوکرین کی امداد کا بل سینیٹ سے منظور نہ ہو سکاامریکی صدر جو بائیڈن نے کانگریس سے یوکرین اور اسرائیل کے لیے 110 ارب ڈالر کے پیکج کی اپیل کی ہے ۔ تاہم، امریکی سینیٹ میں گزشتہ بدھ کے روز رپبلکنز نے یہ کہتے ہوئے قانون سازی کو روک دیا کہ امریکی سرحدی سیکیورٹی میں بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
اسرائیل حماس جنگ نے یورپی یونین کے ممالک کے درمیان طویل عرصے سے جاری اس گہری تقسیم کو بھی بے نقاب کیا ہےجو وسیع تر بنیادوں پر اسرائیل فلسطین تنازعے کے بارے میں پائی جاتی ہے۔
یورپی یونین کے وزراء اس مسئلے کے سلسلے میں مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ وہ یورپی یونین کی سفارتی سروس کی ایک دستاویز پر غور کریں گے جس میں وسیع تر بنیادوں پر آئندہ ممکنہ اقدامات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔حماس کو امریکہ اور یورپی یونین نے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔
وائس آف امریکہ اور ایسوسی ایٹڈ پریس۔