امریکہ کی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا ہے کہ انٹنی بلنکن نے تل ابیب میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات میں 7 اکتوبر کے دہشت گردحملوں کو دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے اسرائیل کے حق کی حمایت کی ہے۔
ملر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے مزید شہری نقصان سے بچنے اور غزہ میں شہری بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے۔
حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد سے وہاں اب تک 23 ہزار سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔
ترجمان نے بتایا کہ بلنکن نے اسرائیل اور خطے کے لیے دیر پا پائیدار امن کو یقینی بنانے کی ضرورت اور ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے امریکی موقف کا اعادہ کیا۔
ایک ایسے وقت میں جب امریکی وزیر خارجہ اسرائیل اور خطے کے عرب ممالک کا دورہ کر رہے ہیں، اے ایف پی نے، غزہ کے جنوب میں واقع سب سے بڑے شہر خان یونس اور رفح میں رات بھر اسرائیلی فورسز کی شدید بمباری کی اطلاع دی ہے۔
اس علاقے میں غزہ سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی ایک بہت بڑی تعداد جمع ہے۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے خان یونس میں اپنی فضائی اور زمینی کارروائیوں کے دوران گزشتہ 24 گھنٹوں میں 40 عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا اور بہت سا گولا بارود اور ہتھیار قبضے میں لیا ہے۔
یہ جنگ 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ اس حملے میں اسرائیل کے مطابق 1140 افراد ہلاک ہو گئے تھے جب کہ 240 کے لگ بھگ افراد کو حماس کے جنگجو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
اسرائیلی فوج نے بتایا ہے کہ غزہ میں لڑائی کے دوران اب تک اس کے 185 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اپنی زمینی کارروائیوں کے دوران اس نے شمالی غزہ میں بڑی حد تک فوجی کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور اب یہ جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے اپنے اس دورے میں اس توقع کا بھی اظہار کیا کہ جنگ کے بعد اسرائیل امریکی ثالثی میں متحدہ عرب امارات اور دیگر ریاستوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں کے ذریعے علاقائی انضمام و اتفاق کے لیے اپنی کوششوں کو آگے بڑ ھا سکتا ہے۔
انہوں نے اسرائیلی وزیر خارجہ کاٹز سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ میرے خیال میں اس کے لیے حقیقی مواقع موجود ہیں ، لیکن اس کے لیے ہمیں اس انتہائی مشکل اور چیلنجنگ لمحے کو عبور کرنا ہے۔
بلنکن اپنے اس دورے میں اسرائیل سے قبل قطر اور سعودی عرب جا چکے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کی جنگ نے غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے زیادہ تر کو بے گھر کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں اکثریت کو قحط اور بیماری کا خطرہ ہے،
پابندیوں کے باعث بہت کم امداد فلسطینیوں تک پہنچ رہی ہے۔ اسرائیل کے انسانی حقوق کے گروپ بیت سلم (B'Tselem) کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہر کوئی بھوکا ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)