بچین میں مجھے بینگن سخت ناپسند تھے۔ اکثر بچوں کو اب بھی ہیں۔ مگر ان دنوں بینگن پکانے کا بہت رواج تھا۔خاص طور پر گرمیوں میں دوپہر کے کھانے پر اکثر بینگن کی کوئی نہ کوئی ڈش ضرور ہوتی تھی۔ مثلاً بینگن کی بھجیا، بینگن آلو، بینگن گوشت، بینگن کا اچار والا سالن، کچھ اور نہیں تو بینگن کا بھرتہ ضرور بنتا تھا۔ بھرتے کے لیے بینگن تنور والے کے پاس بھیجے جاتے تھے جواسے گوشت کے سٹیک کی طرح کہیں سے جلادیتاتھا اور کہیں سے وہ کچے رہ جاتے تھے۔ پھر ان ادھ جلے بینگنوں میں کچی پیاز ، ہری مرچیں ، ہرا دھنیا ، ہرا پودینہ اور پسی سرخ مرچیں ڈال کرایک سائیڈ ڈش تیار کرلی جاتی تھی، جسے دھی کے ساتھ ملاکر کھایا جاتاتھا۔ بزرگوں کا کہنا تھا کہ گرمیوں میں بینگن ضرور کھانے چاہیں کیونکہ وہ گرمی کو مارتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ بینگن دیکھتے ہی میری بھوک مر جاتی تھی، لیکن مجھے بینگن کھانے پڑتے تھے، کبھی ڈانٹ کے ساتھ، کبھی پیار کے ساتھ اور کبھی کبھی انکار کرنے پر بینگنوں کے ساتھ ایک آدھ چپت بھی کھانی پڑتی تھی۔
ان دنوں بینگن بہت سستے ہوتے تھے۔ اتنے سستے کہ ترکاری لینے پر سبزی والا کچھ بینگن جھونگے میں مفت ہی ٹوکری میں ڈال دیتاتھا۔ ان دنوں بزرگوں کی محفلوں میں سیاست کی باتیں نہیں ہوتی تھیں، کیونکہ سیاست ہوتی ہی نہیں تھی۔ کوئی ایک ڈکٹیٹر آکر بیٹھ جاتا تھا اور آٹھ دس سال سیدھے سیدھے یونہی نکل جاتے تھے۔ بزرگ یہ رونا بھی نہیں روتے تھے کہ نئی نسل ہاتھ سے نکلی جارہی ہے۔ کیونکہ انٹرنیٹ تھا اور نہ الیکٹرانک میڈیا۔ بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی وی کا زمانہ تھا۔ ٹی وی بھی محلے میں کسی کسی کے گھر ہوتا تھا ، جسے برآمدے یا صحن میں رکھ کر سامنے دری بچھا دی جاتی تھی اور محلے بھر کی عورتیں اور بچے اس کے سامنے جمع ہوجاتے تھے ۔ گھر کی عورتیں باروچی خانے میں کھانا پکاتے ہوئے گردن گھما کر ٹی وی کی طرف دیکھتی رہتی تھیں۔ چنانچہ اکثر کھانا جل جاتاتھا اور بینگن بھی شاید اسی لیے پکائے جاتے تھے کہ کیونکہ ان کے جلنے سے یا کچا رہ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تیز مرچوں کے بھرتے میں سب چل جاتاہے۔
اس زمانے کے نوجوانوں کی واحد تفریح رات کوچوری چھپے آل انڈیا اور سیلون ریڈیو سے فرمائشی گانے سننا تھی۔ کئی نوجوان تو اپنے اور محلے کی لڑکیوں کے نام سے عشقیہ گانوں کی فرمائشیں لکھ کر بھجوادیتے تھے۔ گویا لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان پیغام رسانی کا آسان ذریعہ ریڈیو کے فرمائشی پروگرام تھے اورجذبات کا اظہار فلمی گانوں کے ذریعے کیا جاتھا تھا، جس کا بزرگوں کو کم کم ہی پتا چلتاتھا۔ انہیں اگر کسی چیز کا پتا تھا تو وہ یہ تھا کہ گلی کا کونسا بچہ بینگن نہیں کھاتا، کسے توری ناپسند ہے، کون کدوکو دیکھ کر ناک منہ بناتا ہے، کس کی کریلے سے جان جاتی ہے۔ بینگن سمیت تمام سبزیاں رغبت سے کھانے والے بچے کوانتہائی سلیقہ شعاراور تمیز دار سمجھاجاتاتھا اور محلے بھر کے بزرگ اپنے بچوں کے سامنے کی اس کی مثال دیا کرتے تھے۔ گویا بینگن کھانا تمیز دار اور سلیقہ شعار ہونے کی نشانی تھی۔ اس زمانے میں مجھے بینگن کھانا اتنا مشکل لگتاتھا کہ دنیا کی ساری مشکلیں اس کے آگے ہیچ نظر آتی تھیں۔
مجھے یاد نہیں ہے کہ مجھ میں یہ اعلیٰ ظرفی کب آئی کہ میں نے بینگن کو کھانے کی ایک ڈش کے طور پر قبول کرلیا۔ بس اتنا پتا ہے کہ جب میں کالج میں پہنچا تو بڑی رضا ورغبت سے بینگن کھارہا تھا۔ کالج کے زمانے کا ایک دوست اسلم ہوسٹل میں رہتاتھا۔ بڑا ہونے کے باوجود وہ چھوٹا ہی رہ گیا تھا ، کیونکہ اسے بینگن سخت ناپسند تھے۔ بے چارے کی بدقسمتی یہ تھی کہ ہوسٹل کا باورچی اکثر بینگن پکا دیتاتھا اور وہ بھی شوربے والے۔ کئی بار اس نے بڑا شور شرابہ بھی ڈالا، لیکن بینگن کا پلڑا بھاری رہا اور ہوسٹل سپرنڈینڈنٹ نے اسے ڈانٹا کہ تم آدمی ہوکہ بینگن۔۔ ۔ہوسٹل کا کھانا پسند نہیں تو باہر سے کھا آیا کرو۔ سپرنڈینڈنٹ کی مجبوری یہ تھی کہ اس کے کچن کا خرچہ بھی ہوسٹل کے ڈائنگ ہال سے نکلتاتھا۔ اس زمانے میں لوگ بس اتناہی چھوٹا موٹا ہاتھ مارتے تھے۔ اسلم کئی بار بینگنوں سے بھاگ کر کھانا کھانے میرے گھر آجاتاتھا۔ لیکن اس کا مقدر خراب تھا اور وہ جب بھی آیا اسے ہمارے ہاں بھی بینگن ہی ملے۔ کالج کے بعد وہ اپنے والد کے ساتھ کاشت کاری میں ان کا ہاتھ بٹانے لگا۔ چند سال پہلے جب میری اسلم سے ملاقات ہوئی تو اس کی زمین کے ایک ٹکڑے پر سبزیوں کا ایک فارم بن چکا تھااورکراچی کی مارکیٹ کو سبزیاں فراہم کررہا تھا ۔ میں نے یونہی بے دھیانی میں پوچھ لیا کہ تمہارے فارم کی کونسی سبزی سب سے اچھی ہے ؟ وہ شرماتے ہوئے بولا۔ بینگن۔۔۔ پھر کہنے لگا کہ میں نے بینگن کھانے شروع کردیے ہیں۔ یار بینگن کا رائتہ بڑے غضب کا ہوتا ہے۔ آج ہمارے ہاں بنا ہے۔ دونوں بھائی مل کرکھائیں گے۔
میں نے اپنا پچین بینگن سے بھاگنے اور جوانی کا ایک حصہ بینگنوں سے منسوب محاورے اور لطیفے سننے اور سنانے میں گذار دیا۔ جب امریکہ پہنچا تو یہ دیکھ کر انتہائی تعجب ہوا کہ بینگن یہاں کے گراسری اسٹوروں میں بھی نہ صرف رونق افروز ہے بلکہ وہ دوسری سبزیوں سے زیادہ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ امریکی بینگنوں کے سامنے تو ہمارے دیسی بیگن مارے شرمندگی کے سکڑے، سہمے اور سمٹے ہوئے سے لگتے ہیں۔ جتنے بڑے بینگن یہاں ہوتے ہیں، اس سائز میں تو ہمارے ہاں تربوز ملتے ہیں۔ سناہے کہ امریکی بینگن بڑی رغبت سے کھاتے ہیں اور ان کے کئی کھانے بینگنوں سے بنتے ہیں۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں ہے کہ امریکیوں کے بچے بینگن کھاتے ہیں یا نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارےدورکے بز رگ آج زندہ ہوتے تو شاید وہ یہ مثالیں دیا کرتے کہ امریکی اس لیے سپر پاور ہیں کیونکہ وہ بینگن کھاتے ہیں۔
آج مجھے بینگن کا خیال کھانے پکانے سے متعلق ایک ٹیلی ویژن چینل دیکھ کرآیا جس میں شیف بگھارے بینگن پکانے سکھا رہاتھا۔اس نے دو ڈالر کے بینگن میں کم وبیش پچاس ساٹھ ڈالر کے پستے بادام، میوہ جات اور دوسرے مصالحے ڈالے۔ اور پھر بگھارے بینگن کی ڈش میز پر سجاتے ہوئے بڑے فخر سے بولا۔اس ڈش کی خوبی یہ ہے کہ اس میں آپ کو بینگن کی اصل خوشبو آئے گی۔مجھے خیال آیا جب بینگن کی اصل خوشبو ہی سونگھنی ہے تو پھر اس کے بھرتے اور بھجیا میں کیاحرج ہے۔ اور مہنگائی کے اس دور میں پچاس ساٹھ ڈالر کی بچت کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔