شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق بدھ کے روز دمشق میں شامی فوج کی بس میں نصب دو بم پھٹنے سے کم از کم 14 افراد ہلاک ہو گئے۔
صدر بشار الاسد کی فورسز کی جانب سے 2018 میں دارالحکومت دمشق کے مضافات میں حکومت مخالف جنگجوؤں پر دباؤ ڈالنے کے بعد سے یہ سب سے زیادہ ہلاکت خیزحملہ تھا۔ ملک کے دیگر حصوں میں شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان لڑائی ایک عشرے سے جاری ہے۔
کسی نے فوری طور پر اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ یہ دھماکہ ایک ایسے مقام کے قریب ہوا جہاں مسافر بسوں میں سوار ہوتے ہیں۔ اس جگہ مسافروں اور بچوں کا ہجوم ہوتا ہے۔
سرکاری ذرائع ابلاغ نے ایک فوجی ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ یہ دونوں بم سڑک کے کنارے نصب تھے جہاں سے فوجیوں کی بس کو گزرنا تھا۔ فوج کا کہنا ہے کہ اس نے ایک اور دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنا دیا۔
اس سے پہلے دمشق کے سب سے مہلک دھماکوں میں آخری دھماکہ 2017 میں ہوا تھا، جس میں خودکش حملہ آوروں نے ایک عدالتی عمارت اور ایک ریستوران کو ہدف بنایا تھا۔ اس حملے میں تقریباً 60 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان حملوں کی ذمہ داری دہشت گردگروپ داعش نے قبول کی تھی۔
داعش نے شام اور عراق کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر کے اپنی حکومت کا اعلان کیا تھا۔ تاہم 2019 کے بعد سے شام کے کسی علاقے پر داعش کا کنٹرول نہیں ہے۔ اور ان کے جنگجو صحرا میں بکھر چکے ہیں اور سلیپر سیلز کے طور پر خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
دمشق میں بم دھماکوں سے قبل شام کی فورسز نے شام کے شمال مغربی علاقے میں داعش کے آخری ٹھکانے کے ایک قصبے پر گولا باری کی جس میں چار بچوں اور ایک خاتون سمیت 10 افراد ہلاک ہو گئے۔ جس پر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے اپنے ردعمل میں کہا کہ تشددد کا یہ واقعہ اس بات کی ایک اور یاددہانی ہے کہ شام میں جنگ ختم نہیں ہوئی جس کی قیمت عام شہری اور بچے ادا کر رہے ہیں۔
شام میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ایک گروپ 'سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' نے کہا ہے کہ اریحہ قصبے پر ہونے والے اس حملے کے نتیجے میں مارچ 2020 کے بعد سب سے زیادہ شہری ہلاکتیں ہوئیں تھیں۔ مارچ سن 2020 میں ادلیب کے علاقے میں یہ ہلاکتیں شام کے اتحادی ترکی اور روس کے درمیان جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے دوران ہوئی تھیں۔