کابل: بم دھماکے میں انسانی حقوق کی سرگرم خاتون کارکن ہلاک

فائل

افغان اہل کاروں نے بتایا ہے کہ ہفتے کے روز کابل میں سڑک کنارے نصب بم دھماکے میں انسانی حقوق کے قومی ادارے سے وابستہ نگراں گروپ کے دو ارکان ہلاک ہو گئے۔

افغانستان کے انسانی حقوق کے آزاد کمیشن نے بتایا کہ عطیہ دہندگان کی رابطہ کار 24 سالہ فاطمہ خلیل اور ان کا ڈرائیور صبح کے وقت اپنے دفتر جا رہے تھے، جب دارالحکومت کے مشرقی علاقے میں ان کی کار دیسی ساختہ دھماکہ خیز ڈیوائس کی زد میں آئی۔

کمیشن نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے دو ملازمین کی ہلاکت پر ادارے کو انتہائی صدمہ پہنچا ہے۔ ایک اخباری بیان میں کمشن نے کہا ہے کہ ''دھماکے کے ذمے داروں کو شناخت کیا جائے اور اس قبیح جرم میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے''۔

اس بم دھماکے کی فوری طور پر کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ حالیہ ہفتوں کے دوران کابل میں ہدف بنا کر ہلاکتوں کے واقعات کے سلسلے میں نامور افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے، جس کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔

ان حملوں میں انتہائی معروف علمائے دین، متمدن معاشرے کے نمائندگان اور چار ارکان، جن میں ملک کے اٹارنی جنرل کے دفتر کے دو وکیل بھی شامل ہیں، انہیں گذشتہ ہفتے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

اس سے قبل عسکریت پسندوں نے آئین کی رو سے تشکیل دیے گئے افغانستان کے انسانی حقوق کے آزاد کمشن کے ارکان کے خلاف مہلک حملے کیے۔ افغان اہلکار تشدد کی ان کارروائیوں کا ذمہ دار اکثر طالبان باغیوں کو قرار دیتے رہے ہیں۔

افغانستان میں تعینات امریکی سفیر، راس ولسن نے افغانستان کے انسانی حقوق کے کمشن پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تشدد کی جاری کارروائیوں کو بند کیا جائے اور ان حملوں کے نتیجے میں افغانوں کی بے توقیری اور ان پر پڑنے والے خوف کے سائے افسوس ناک امر ہے۔

اپنے ایک ٹوئٹ میں، ولسن نے کہا کہ ''حالیہ دنوں کے دوران، ہم نے اور ملک کے شہریوں نے افغان سیکیورٹی فورسز، بے قصور سویلینز، مذہبی اسکالروں اور افغانستان کے عدالتی نظام سے وابستہ نمائندوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے رہے ہیں؛ اور اب انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے جو انسانی حقوق اور آزادی کا دفاع کرتے ہیں۔ ان حملوں کو رکنا چاہیے''۔