چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہوا چُنیانگ نے کہا کہ چین سویلین آبادی کے خلاف تمام پُر تشدد حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے اور ان کا سخت مخالف ہے۔
واشنگٹن —
بوسٹن میراتھن پر دہشت گردی کے حملے کے اثرات، جس میں تین افراد ہلاک اور 170 سے زیادہ زخمی ہوئے، ساری دنیا میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ بین الاقوامی برادری امریکہ اور متاثرین کے ساتھ ہمدردی اور حمایت کا اظہار کر رہی ہے ۔
ماسکو میں امریکی سفارت خانے کے باہر لوگوں نے پھولوں کے گلدستے اور ہمدردی کے پیغامات چھوڑے۔
جنوبی افریقہ نے یکجہتی کا اظہار کیا ۔ وزارتِ خارجہ کے نیلسن کگویٹ نے کہا ’’اختلاف چاہے کیسا ہی کیوں نہ ہو، جب کبھی بعض لوگ یا گروپس اپنے اختلافات طے کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لیتے ہیں، ہم اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔‘‘
اور چین سے بھی ایک پیغام آیا۔ چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہوا چُنیانگ نے کہا’’چین سویلین آبادی کے خلاف تمام پُر تشدد حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے اور ان کا سخت مخالف ہے۔ اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی موت پر، ہمیں سخت صدمہ ہوا ہے۔‘‘
افغانستان سے، جہاں بمباریوں کی کوئی کمی نہیں، صدر کرزئی کی طرف سے ان کے نائب ترجمان فائق واحدی نے تعزیت کے پیغام میں کہا’’صدر کرزئی کو بے گناہ لوگوں کے ہلاک و زخمی ہونے کی خبر پر افسوس ہوا ہے۔ اس قسم کے واقعات سے جو پریشانی اور تکلیف ہوتی ہے، افغانستان کے لوگ اس سے اچھی طرح واقف ہیں، بلکہ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو اس دکھ درد کو افغانستان سے زیادہ بہتر طریقے سے سمجھتا ہو۔‘‘
برلن میں، جرمنی کے وزیرِ خارجہ گویڈو ویسٹرویل نے جن جذبات کا اظہار کیا وہ بوسٹن میں اور امریکہ بھر میں لوگوں کے ذہنوں میں موجود تھے۔ ’’ایک انتہائی خوشی کا موقعہ ایک ہولناک المیے میں تبدیل ہو گیا۔ مجھے امید ہے کہ اس ہولناک جرم کا ارتکاب کرنے والوں کا پتہ چلا لیا جائے گا اور انہیں انصاف کے کٹہرے تک لایا جائے گا۔‘‘
چند دنوں بعد لندن میں اس کا اپنی میراتھن دوڑ ہونے والی ہے۔ لندن کے میئر بورس جانسن نے کہا’’بوسٹن میں جو کچھ ہوا وہ بڑا ہولناک تھا۔ ہماری ہمدردیاں متاثرین کے گھرانوں اور اس حملے کا شکار ہونے والوں کے ساتھ ہیں۔‘‘
جانسن کہتے ہیں کہ لندن میں سیکورٹی کے انتظامات میں اضافہ کر دیا جائے گا، اور ریس پروگرام کے مطابق ہو گی۔
فی الحال تو جو بہت سے لوگ بوسٹن میراتھن سے متاثر ہوئے ہیں وہ جس طرح بھی ہو، اپنی زندگی گذارنے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتے ۔
ماسکو میں امریکی سفارت خانے کے باہر لوگوں نے پھولوں کے گلدستے اور ہمدردی کے پیغامات چھوڑے۔
جنوبی افریقہ نے یکجہتی کا اظہار کیا ۔ وزارتِ خارجہ کے نیلسن کگویٹ نے کہا ’’اختلاف چاہے کیسا ہی کیوں نہ ہو، جب کبھی بعض لوگ یا گروپس اپنے اختلافات طے کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لیتے ہیں، ہم اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔‘‘
اور چین سے بھی ایک پیغام آیا۔ چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہوا چُنیانگ نے کہا’’چین سویلین آبادی کے خلاف تمام پُر تشدد حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے اور ان کا سخت مخالف ہے۔ اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی موت پر، ہمیں سخت صدمہ ہوا ہے۔‘‘
افغانستان سے، جہاں بمباریوں کی کوئی کمی نہیں، صدر کرزئی کی طرف سے ان کے نائب ترجمان فائق واحدی نے تعزیت کے پیغام میں کہا’’صدر کرزئی کو بے گناہ لوگوں کے ہلاک و زخمی ہونے کی خبر پر افسوس ہوا ہے۔ اس قسم کے واقعات سے جو پریشانی اور تکلیف ہوتی ہے، افغانستان کے لوگ اس سے اچھی طرح واقف ہیں، بلکہ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو اس دکھ درد کو افغانستان سے زیادہ بہتر طریقے سے سمجھتا ہو۔‘‘
برلن میں، جرمنی کے وزیرِ خارجہ گویڈو ویسٹرویل نے جن جذبات کا اظہار کیا وہ بوسٹن میں اور امریکہ بھر میں لوگوں کے ذہنوں میں موجود تھے۔ ’’ایک انتہائی خوشی کا موقعہ ایک ہولناک المیے میں تبدیل ہو گیا۔ مجھے امید ہے کہ اس ہولناک جرم کا ارتکاب کرنے والوں کا پتہ چلا لیا جائے گا اور انہیں انصاف کے کٹہرے تک لایا جائے گا۔‘‘
چند دنوں بعد لندن میں اس کا اپنی میراتھن دوڑ ہونے والی ہے۔ لندن کے میئر بورس جانسن نے کہا’’بوسٹن میں جو کچھ ہوا وہ بڑا ہولناک تھا۔ ہماری ہمدردیاں متاثرین کے گھرانوں اور اس حملے کا شکار ہونے والوں کے ساتھ ہیں۔‘‘
جانسن کہتے ہیں کہ لندن میں سیکورٹی کے انتظامات میں اضافہ کر دیا جائے گا، اور ریس پروگرام کے مطابق ہو گی۔
فی الحال تو جو بہت سے لوگ بوسٹن میراتھن سے متاثر ہوئے ہیں وہ جس طرح بھی ہو، اپنی زندگی گذارنے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتے ۔