جب بوسٹن سمفنی آرکسٹرا کے روسی نژاد ہدایت کار سرج کوسووٹسکی نے 1937 میں ٹینگل ووڈ کا آغاز کیا تو انہوں نے صرف موسیقار بیتھوون کی دھنوں کا انتخاب کیا
کھلے آسمان تلے کلاسیکی موسیقی کی محفلیں امریکہ میں موسمِ گرما کی ایک روایت بن چکی ہیں۔ مگر 75 برس قبل یہ روایت موجود نہیں تھی۔ اس وقت پہلی مرتبہ بوسٹن سنفنی آرکسٹرا نے ریاست میساچوسٹس میں واقع برکشائر پہاڑوں پر موجود ٹینگل ووڈ میں اپنے فن کا اظہار کیا۔
اس وقت سے یہ جگہ گرمیوں میں بوسٹن سِنفنی کا گھر بن چکی ہے۔ جب بوسٹن سنفنی آرکسٹرا کے روسی نژاد ہدایت کار سرج کوسووٹسکی نے 1937 میں ٹینگل ووڈ کا آغاز کیا تو انہوں نے صرف موسیقار بیتھوون کی دھنوں کا انتخاب کیا۔ جولائی 2012 میں جب ہدایت کار کرسٹوف فان ڈونان یی نے ان محفلوں کی 75ویں سالگرہ کے موقعے پر سیزن کا آغاز کیا تو انہوں نے ایک بار پھر انہی دھنوں کا انتخاب کیا جو پہلی مرتبہ پیش کی گئ تھیں۔
بیتھوون کا قدرت کو پرندوں کی بولیوں سے آراستہ موسیقی کا نذرانہ اس خوبصورت علاقے کیلئے نہایت موزوں معلوم ہوتا ہے۔
جب درختوں کے درمیان چلتے ہوئے آپ اس اکیڈمی کے کھلے علاقے کی طرف جاتے ہیں تو آپ کو ہر جگہ سُرسنائی دیتے ہیں۔ کہیں فرنچ ہارن بجانے والے اس جنگل میں کسی کیبن میں بیٹھے سٹراس کی دھن کی ریہرسل کر تے ملیں گے یا کانسرٹ ہال میں وائلن، چیلو، اور وائلا ہاتھ میں لئے ایک گروپ عصر حاضر کی موسیقی بجاتا نظر آئے گا۔ یا پھر کسی گودام میں دو بگل بجانے والے بیتھوون کی دھنوں کی ریہرسل کرتے نظر آئیں گے۔
بہت سی مشہور فلموں کی موسیقی کے خالق ہدایت کار جان ولیمز کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایسی جگہ ہے جہاں موسیقی اور قدرت بہت فطری طور پر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔‘‘
آسکر انعام یافتہ یہ موسیقار 1980 سے ہر سال ٹینگل ووڈ آ تے ہیں۔ ’’جب ہم خوبصورت موسم میں درختوں کے درمیان واقع اس جگہ آتے ہیں تو موسیقار اور سامع دونوں حیثیت سے کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں۔‘‘
بوسٹن سنفنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر مارک وولپ اس جگہ کام کرنے والے تقریباً ایک ہزار ملازموں اور رضاکاروں کی نگرانی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ، ’’ہر شہر میں ایک کانسرٹ ہال ہوتا ہے۔ مگر جو چیز بوسٹن سِنفنی کو آرکسٹرا کی دنیا میں منفرد بناتی ہے وہ ٹینگل ووڈ ہے۔‘‘ موسم گرما میں فن کے اظہار کی خاص جگہ کا تصور ٹینگل ووڈ سے ہی نکلا تھا۔
1930 کی دہائی میں کساد بازاری کے دوران کوسووٹسکی نے ٹینگل ووڈ میں جب ہدایت کاری شروع کی تو آرکیسٹرا ایک ٹینٹ میں اپنے فن کا اظہار کرتا تھا۔ جب ایک طوفان سے یہ ٹینٹ خراب ہو گیا تو بوسٹن سنفنی نے ایک معمولی مگر زیادہ پائیدار عمارت تعمیر کی۔ یہ عمارت تھی کچے فرش کے ساتھ ایک شیڈ اور لکڑی کی کرسیاں۔ آواز کی بہتر ترسیل کیلئے کی جانی والی کچھ معمولی تبدیلیوں کے علاوہ یہ عمارت اب بھی ویسی ہی ہے۔
دنیا بھر سے بہترین موسیقار ٹینگل ووڈمیں آکر ناصرف اپنے فن کا اظہار کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی سکھاتے ہیں۔ ایرن کوپلینڈ اور لینارڈ برنسٹائن جیسے عظیم موسیقار ہر سال برسوں تک یہاں شرکت کیلئے آتے رہے۔ آجکل یویو ما اور ایمانوئل ایکس میوزک سنٹر کے اساتذہ میں شامل ہیں۔یہ میوزک سنٹر نوجوان موسیقاروں کی تربیت گاہ ہے۔ہر سال گرمیوں میں150 کے قریب نوجوان موسیقار یہاں مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ وہ ٹینگل ووڈ میں اپنے فن کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
ٹام رالف 18 سال کی عمر میں ایک سٹوڈنٹ کی حیثیت سے یہاں آئے تھے۔ آج وہ بوسٹن سنفنی میں ٹرمپٹ کے لیڈر ہیں اور ٹینگل ووڈ میں پڑھاتے بھی ہیں۔
سامعین کے بغیر موسیقی کی دنیا نا مکمل ہے۔ یہاں لاکھوں کی تعداد میں موسیقی کے شائقین آتے ہیں۔ ہر برس تقریباً ساڑھے تین لاکھ ٹکٹیں فروخت ہوتی ہیں۔
اس وقت سے یہ جگہ گرمیوں میں بوسٹن سِنفنی کا گھر بن چکی ہے۔ جب بوسٹن سنفنی آرکسٹرا کے روسی نژاد ہدایت کار سرج کوسووٹسکی نے 1937 میں ٹینگل ووڈ کا آغاز کیا تو انہوں نے صرف موسیقار بیتھوون کی دھنوں کا انتخاب کیا۔ جولائی 2012 میں جب ہدایت کار کرسٹوف فان ڈونان یی نے ان محفلوں کی 75ویں سالگرہ کے موقعے پر سیزن کا آغاز کیا تو انہوں نے ایک بار پھر انہی دھنوں کا انتخاب کیا جو پہلی مرتبہ پیش کی گئ تھیں۔
بیتھوون کا قدرت کو پرندوں کی بولیوں سے آراستہ موسیقی کا نذرانہ اس خوبصورت علاقے کیلئے نہایت موزوں معلوم ہوتا ہے۔
جب درختوں کے درمیان چلتے ہوئے آپ اس اکیڈمی کے کھلے علاقے کی طرف جاتے ہیں تو آپ کو ہر جگہ سُرسنائی دیتے ہیں۔ کہیں فرنچ ہارن بجانے والے اس جنگل میں کسی کیبن میں بیٹھے سٹراس کی دھن کی ریہرسل کر تے ملیں گے یا کانسرٹ ہال میں وائلن، چیلو، اور وائلا ہاتھ میں لئے ایک گروپ عصر حاضر کی موسیقی بجاتا نظر آئے گا۔ یا پھر کسی گودام میں دو بگل بجانے والے بیتھوون کی دھنوں کی ریہرسل کرتے نظر آئیں گے۔
بہت سی مشہور فلموں کی موسیقی کے خالق ہدایت کار جان ولیمز کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایسی جگہ ہے جہاں موسیقی اور قدرت بہت فطری طور پر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔‘‘
آسکر انعام یافتہ یہ موسیقار 1980 سے ہر سال ٹینگل ووڈ آ تے ہیں۔ ’’جب ہم خوبصورت موسم میں درختوں کے درمیان واقع اس جگہ آتے ہیں تو موسیقار اور سامع دونوں حیثیت سے کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں۔‘‘
بوسٹن سنفنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر مارک وولپ اس جگہ کام کرنے والے تقریباً ایک ہزار ملازموں اور رضاکاروں کی نگرانی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ، ’’ہر شہر میں ایک کانسرٹ ہال ہوتا ہے۔ مگر جو چیز بوسٹن سِنفنی کو آرکسٹرا کی دنیا میں منفرد بناتی ہے وہ ٹینگل ووڈ ہے۔‘‘ موسم گرما میں فن کے اظہار کی خاص جگہ کا تصور ٹینگل ووڈ سے ہی نکلا تھا۔
1930 کی دہائی میں کساد بازاری کے دوران کوسووٹسکی نے ٹینگل ووڈ میں جب ہدایت کاری شروع کی تو آرکیسٹرا ایک ٹینٹ میں اپنے فن کا اظہار کرتا تھا۔ جب ایک طوفان سے یہ ٹینٹ خراب ہو گیا تو بوسٹن سنفنی نے ایک معمولی مگر زیادہ پائیدار عمارت تعمیر کی۔ یہ عمارت تھی کچے فرش کے ساتھ ایک شیڈ اور لکڑی کی کرسیاں۔ آواز کی بہتر ترسیل کیلئے کی جانی والی کچھ معمولی تبدیلیوں کے علاوہ یہ عمارت اب بھی ویسی ہی ہے۔
دنیا بھر سے بہترین موسیقار ٹینگل ووڈمیں آکر ناصرف اپنے فن کا اظہار کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی سکھاتے ہیں۔ ایرن کوپلینڈ اور لینارڈ برنسٹائن جیسے عظیم موسیقار ہر سال برسوں تک یہاں شرکت کیلئے آتے رہے۔ آجکل یویو ما اور ایمانوئل ایکس میوزک سنٹر کے اساتذہ میں شامل ہیں۔یہ میوزک سنٹر نوجوان موسیقاروں کی تربیت گاہ ہے۔ہر سال گرمیوں میں150 کے قریب نوجوان موسیقار یہاں مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ وہ ٹینگل ووڈ میں اپنے فن کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
ٹام رالف 18 سال کی عمر میں ایک سٹوڈنٹ کی حیثیت سے یہاں آئے تھے۔ آج وہ بوسٹن سنفنی میں ٹرمپٹ کے لیڈر ہیں اور ٹینگل ووڈ میں پڑھاتے بھی ہیں۔
سامعین کے بغیر موسیقی کی دنیا نا مکمل ہے۔ یہاں لاکھوں کی تعداد میں موسیقی کے شائقین آتے ہیں۔ ہر برس تقریباً ساڑھے تین لاکھ ٹکٹیں فروخت ہوتی ہیں۔