پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک استحکام کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں کو نیوکلیئر سپرائیرز گروپ (این ایس جی) کی رکنیت دی جائے۔
رواں ہفتے جنوبی کوریا کے شہر سیول میں ہونے والے ایک اجلاس میں پاکستان اور بھارت کی رکنیت کی درخواستوں پر غور کیا جائے گا
سرتاج عزیز نے اتوار کو ’پی ٹی وی‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان نے ’این ایس جی‘ کے رکن ممالک سے رابطے کر کے اس سلسلے میں اپنا مؤقف واضح کیا۔
’’یہ انڈیا پاکستان کی دو درخواستیں نہیں ہیں جس کو آپ الگ الگ دیکھیں۔ کیونکہ اس برصغیر میں اسٹریٹجک استحکام جو ہے وہ خود جوہری عدم پھیلاؤ کی تنظیم کا مقصد ہے۔ کیونکہ اگر یہاں پر ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے تو سارے کے سارے مقاصد دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ استحکام کا مقصد تبھی حاصل ہو گا جب دونوں ممالک اکٹھے رکن بنیں، اور الگ الگ نہ بنیں۔‘‘
سرتاج عزیز نے اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان کی کوششوں کے باعث رواں ہفتے بھارت کو رکنیت حاصل نہیں ہو سکے گی۔
اس سے قبل نو جون کو ویانا میں ’این ایس جی‘ کے اجلاس میں پاکستان نے موقف اختیار کیا تھا کہ ’این ایس جی‘ کو رکنیت کی نئی درخواستوں پر غور کے لیے استثنیٰ کی بجائے اصولوں پر مبنی پالیسی اپنانی چاہئیے۔
نیوکلیئر سپلائیرز گروپ 48 ممالک پر مشتمل ایک تنظیم ہے جو جوہری مواد، سازوسامان اور ٹیکنالوجی کی تجارت کو کنٹرول کرتی ہے تاکہ کوئی ملک انہیں غیر قانونی طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے استعمال نہ کر سکے۔
’این ایس جی‘ کے تمام رکن ممالک نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔
مگر پاکستان اور بھارت دونوں اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔
تاہم امریکہ، فرانس اور برطانیہ سمیت کئی ممالک نے بھارت کو اس تنظیم کا رکن بنانے کی حمایت کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں جوہری طبعیات کے ماہر اور امن کارکن ڈاکٹر اے ایچ نیئر نے کہا کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ بھارت کو اس تنظیم کی رکنیت دی جائے کیونکہ وہ مستقبل میں متفقہ فیصلے کے اصول کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی رکنیت کا راستہ روک سکتا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ رکنیت نہ ملنے سے جوہری ٹیکنالوجی، سازوسامان اور مواد تک رسائی کے حوالے سے بھارت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کے تحت بھارت پہلے ہی عالمی سطح پر جوہری تجارت کر رہا ہے۔
’’ہندوستان کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا اگر رکنیت نہ بھی ملے سوائے اس کے کہ وہ ایک حیثیت جو چاہتا تھا کہ فیصلہ کرنے والی جگہ پر بیٹھ جائے اور نیوکلیئر مین سٹریم میں شامل ہو جائے، وہ رک جائے گا تھوڑی دیر کے لیے۔ پاکستان کو جو دشواری ہے وہ یہ ہے کہ این ایس جی کی رکنیت ملنے سے اس کے راستے سے جو رکاؤٹیں ہٹ جاتیں جوہری تجارت کی وہ قائم رہیں گی۔‘‘
انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ سیول میں اجلاس کے بعد اس بات پر کھل کر بحث چلے گی کہ کیا جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہ کرنے والے ممالک کو بھی رکنیت دی جا سکتی ہے یا نہیں، اور اگر دی جا سکتی ہے تو کن اصولوں کی بنیاد پر۔