ایک نئے مطالعہ کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کی ریڑھ کی ہڈی میں واضح فرق ظاہر ہوا ہے اور محققین کا کہنا ہےکہ یہ فرق ان کی پیدائش کے وقت بھی موجود ہوتا ہے۔
لاس اینجلیس کے ایک بچوں کے اسپتال سے وابستہ طبی ماہرین کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں کمزور ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں ۔
بچوں کے امراض کے ڈاکٹر اور تحقیق کے مصنف وی سینٹے گلسانز نے کہا کہ انسان واحد مخلوق ہے، جس میں یہ فرق دیکھا گیا ہے، اور یہ جنسوں کے درمیان پیدائش کے وقت پائےجانے والے اہم اختلافات میں سے ایک ہے۔
'دی سابان ریسرچ انسٹی ٹیوٹ' کے تحقیق دانوں کے مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ ریڑھ کی عمودی تراشے کی جسامت (ورٹیبلر کراس سیکشن ڈائی مینشنس) جس سے ریڑھ کی ہڈی کی طاقت معلوم کی جاسکتی ہے، نوزائیدہ لڑکیوں میں نوزائیدہ لڑکوں کے مقابلے میں اوسطا 11 فیصد کم تھی، اور یہ فرق پیدائش کے وقت کے بچوں کے کوائف جیسے وزن اورجسم کی لمبائی سے آزاد تھا۔
یہ نتائج 'جرنل آف پیڈیاٹرک' نامی جریدے میں شائع ہوا ہے،جس میں محققین کو ریڑھ کی ہڈی کے عمودی ڈھانچے اور عورتوں میں ہڈیوں کی صحت کے درمیان تعلق کا بھی پتا چلا ہے۔
ماہرین کے خیال میں ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کا یہ اختلاف اصل میں عورتوں کو ریڑھ کی ہڈی کے ابنارمل خم 'اسکولی اوسس' اور ہڈیوں کی تحلیل کی بیماری' اوسٹیو پروسس' کے لیے کمزور بناتاہے ۔
مطالعہ 70 صحت مند نوزائیدہ بچوں پر مشتعمل تھا جس میں ماہرین نے ’ایم آر آئی‘ اسکیننگ کی مدد سے35 نوزائیدہ لڑکے اور 35 نوزائیدہ لڑکیاں کا معائنہ کیا اور ان کے پیدائشی وزن، جسم کی لمبائی اور کمر کی پیمائش کی، جس میں دونوں جنسوں کے درمیان نمایاں فرق نہیں تھا ۔
پروفیسر گلسانز نے کہا کہ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ عورتیں کی ہڈیاں، مردوں کی نسبت چھوٹی ہوتی ہیں، لیکن ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ ہڈیوں کی جسامت کا یہ فرق کب شروع ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے مطالعے نے نئے ثبوت فراہم کئے ہیں،جو بتاتا ہے کہ یہ فرق ماں کے پیٹ میں بچہ کی افزائش کےعمل کے دوران شروع ہوتا ہے۔
محققین کو لگتا ہے کہ یہ فرق ارتقائی ہے، یعنی عمودی تراشہ کی کم جسامت ہی دراصل عورتوں کو حمل کے دوران بھاری بوجھ برداشت کرنے کے قابل بناتی ہے۔
تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اپنی پوری زندگی کے دوران عورتوں میں مردوں کے مقابلے میں ہڈیوں کا بڑھنا (بون ماس )کم ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ان میں ہڈیوں کے فریکچر کا خطرہ مردوں کے مقابلے میں چار گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔
محقق گلسانز نے کہا کہ اگرچہ لڑکیوں میں عمر کے ساتھ ساتھ ہڈیوں کے ٹوٹنے کی بیماری آسٹیوپروسس میں مبتلا ہونےکا رجحان، ان کی پیدائش کے وقت سے موجود ہوتا ہے، تاہم ہڈیوں کی افزائش کے عمل کو ورزش اور غذائیت کے ساتھ بہتر کیا جاسکتا ہے ۔
سائنس دانوں کے مطابق ہماری ہڈیوں میں دو اقسام کے خلیے مسلسل سرگرم عمل رہتے ہیں ،جو نئی ہڈیاں بناتے ہیں اور پرانی ہڈیوں کی توڑ پھوڑ کرتے ہیں، جبکہ ہماری عمر کی دوسری دہائی کی نصف حصے تک تعمیری خلیے زیادہ مشقت والا کام کرتے ہیں، اور ہمارے ڈھانچے کو مضبوط بناتے ہیں لیکن ہماری عمر کی چوتھی دہائی میں تخریبی خلیے زیادہ فعال ہوجاتے ہیں اور ہماری ہڈیوں کی کثافت میں بتدریج کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سےہڈیوں کے ٹوٹنے یا ہڈیوں کی بیماری آسٹیوپروسس کا عمل شروع ہوسکتا ہے ۔