دماغ کے بول چال سے متعلق حصے پر نئی تحقیق

دماغ کے بول چال سے متعلق حصے پر نئی تحقیق


ایک تازہ ترین تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ انسانی دماغ بول چال کے عمل میں کس طرح کام کرتا ہے۔سین ڈی ایگو، بوسٹن اور نیویارک میں جاری اس تحقیق سے سائنس دانوں کو دماغ کے اس حصے کو سمجھنے میں مدد مل رہی ہے جسے Broca's area کہا جاتا ہے۔اس تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ دماغ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جتنا کہ سائنس دان سمجھتے تھے۔

نیویارک یونیورسٹی کا میڈیکل سینٹر ان مراکز میں سے ایک ہے جہاں یہ تحقیق ہو رہی ہے۔

39 سالہ ڈینیز ہیرس کے تعاون سے محققین کو دماغ کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد مل رہی ہے۔وہ مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں اور ڈاکٹر ان کے مرگی کے دوروں کو سرجری کے ذریعے کم کرنے کے لیے ان کے دماغ پر تحقیق کر رہے ہیں۔

ہیرس کے سرپر پٹیاں بندھی ہیں۔ ان کے دماغ کے دونوں طرف بجلی کی تاریں لگی ہوئی ہیں۔ ہیرس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا ان کی سرجری ممکن ہے، ان کے دماغ کےمسلسل معائنہ کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ میں زندگی بھر بہت سی دوائیں استعمال کرتی رہی ہوں اور کچھ عرصے کے بعد وہ بے اثر ہو جاتی ہیں۔ مجھے ابھی بھی مرگی کے جھٹکے لگتے ہیں، اس لیے جب ڈاکٹر میرے دماغ کا وہ حصہ نکال دیں گے، جو ان دوروں کو تحریک دیتا ہے، تو ان کا خیال ہے کہ یہ جھٹکے ختم ہو جائیں گے۔

لیکن اب جب کہ ہیرس اسپتال میں ہیں، سائنس دان ان کے دماغ کے معائنے سے یہ سمجھنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں کہ دماغ کس طرح زبان کو سمجھتا اور اسے استعمال کرتا ہے۔

اس تحقیق کے لیے ماہرین دماغ کے اس حصے کا معائنہ کر رہے ہیں جسے Broca's area کہا جاتا ہے۔ دماغ کے اس حصے کو یہ نام 19 ویں صدی کے ایک فرانسیسی ڈاکٹر Pierre Paul Broca کی وجہ سے دیا گیا جنہوں نے سب سے پہلے دریافت کیا تھا کہ دماغ کا یہ حصہ زبان اور بول چال میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اس تحقیق کے دوران ماہرین نے برقی لہروں کے ایک مخصوص طریقے’آئی سی آئی‘ کی مدد سے یہ پتا چلایا کہ دماغ کا یہ حصہ ایک سیکنڈ کے چوتھائی وقت میں بول چال سے متعلق تین مختلف مراحل بتدریج مکمل کرتا ہے۔ اس طریقے کو پہلی بار یہ دستاویزی ثبوت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے کہ دماغ گرائمر اور الفاظ کی ادائیگی کے سلسلے میں کس طرح کام کرتا ہے۔

سین ڈی ایگو میں قائم یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے سکول آف میڈیسن کے ایرک ہیلگرن اس تحقیق کے ایک اہم رکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس تحقیق سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ دماغ کے تقریباً ایک انچ سے بھی چھوٹے حصے میں کئی مختلف حصے تھے، ان میں سے کچھ غالباً ایک دوسرے پر جزوی طور پر جڑے ہوئے تھے، لیکن وہ سب مختلف وقت میں مختلف عمل انجام دے رہے تھے اور یہ سب کچھ اس چھوٹی سی جگہ پر ہو رہا تھا۔

اس حصے میں انجام پانے والا پہلا عمل کسی لفظ کو پہچاننے کا تھا، دوسرا اس لفظ کو کسی جملے کے سیاق و سباق میں سمجھنے کا تھا اور تیسرے کا تعلق اس لفظ کی زبان سے ادائیگی سے تھا۔

ہاروڈ یونیورسٹی کے دماغ کے ماہر سٹیون پنکر بھی اس تحقیق کے مصنفین میں شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دماغ کے بارے میں علم میں اضافے کے باوجود ابھی تک انسانی دماغ کے بہت سے گوشوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ کسی کو نہیں معلوم کہ کس طرح گوشت کا یہ نرم ٹکڑا، جو کسی پٹھے سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے اور جو کاسہٴ سر میں کسی دلیے کی مانند رکھا ہوا ہے، کس طرح دماغ کا کام سرانجام دیتا ہے۔ یہ مکمل طور پر ایک سربستہ راز ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ دماغ پر کی جانے والی تحقیقات سے اس گورکھ دھندے کے مختلف حصوں پر روشنی پڑ رہی ہے اور ممکن ہے کہ ہم کسی دن اس معمے کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔