افغانستان میں طالبان کے ایک منحرف دھڑے کے ترجمان نے اپنے ایک اہم رہنما کی ہلاکت کی خبروں کی تردید کی ہے۔
منان نیازی نے ہفتے کو کہا کہ ملا منصور داد اللہ ’’شدید زخمی‘‘ ہوا مگر اس نے اس کی مزید تفصیل نہیں بتائی۔
زابل صوبے میں طالبان کے متحارب دھڑے ایک ہفتے سے لڑائی میں مصروف ہیں۔ زابل کے حکام کا کہنا ہے کہ داد اللہ گھات لگا کر کیے گئے ایک حملے میں بدھ کو ہلاک ہوا۔
مگر امریکی خبر رساں ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس" نے زابل میں ایک طالبان کمانڈر کا نام ظاہر کیے بغیر خبر دی تھی کہ ملا منصور داداللہ پر اس کے محافظوں میں سے ایک نے فائرنگ کی تھی۔
اطلاعات کے مطابق داد اللہ منحرف دھڑے کے نائب کے طور پر کام کر رہا تھا۔
طالبان کے اس دھڑے نے رواں ماہ ہی ملا اختر منصور کی مخالفت کرتے ہوئے ملا محمد رسول کو اپنا امیر مقرر کیا تھا۔ ملا منصور کو اگست میں افغان طالبان نے ملا عمر کی موت کی خبر منظرعام پر آنے کے بعد اپنا سربراہ منتخب کیا تھا۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ اس دھڑے کو کتنے طالبان جنگجوؤں کی حمایت حاصل ہے۔
منان نیازی نے کہا کہ داد اللہ نے طالبان دھڑے اور افغانستان میں موجود داعش کے جنگجوؤں کے درمیان اتحاد قائم کرنے میں مدد کی تھی۔
ان خبروں کے منظر عام پر آنے سے جہاں ایک طرف طالبان کے آپس کے اختلافات کھل کر سامنے آئے، وہیں افغان حکومت سے طالبان کے مذاکرات کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہیں۔
پاکستان کی کوششوں سے طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان رواں سال جولائی میں پہلی مرتبہ اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں مذاکرات ہوئے تھے۔
بات چیت کا دوسرا دور بھی جولائی کے اواخر میں پاکستان ہی میں ہونا تھا لیکن اس سے محض دو روز قبل یہ خبر سامنے آئی کہ طالبان رہنما ملا عمر کا انتقال ہو چکا ہے، جس کے بعد مذاکرات کا عمل معطل ہے۔
طالبان نے ایک بیان میں تصدیق تھی کہ ملا عمر کا انتقال 2013ء میں ہو گیا تھا لیکن اس خبر کو مصلحتاً پوشیدہ رکھا گیا۔
ملاعمر کے انتقال کی خبر سامنے آنے کے بعد طالبان نے افغانستان میں اپنے حملوں کو تیز کر رکھا ہے اور ستمبر میں کچھ دنوں کے لیے اُنھوں نے ملک کے ایک شہر قندوز پر قبضہ بھی کر لیا تھا، جسے افغان فورسز نے کارروائی کر کے چھڑوا لیا تھا۔