فرانس میں آئندہ دو سال کے دوران جیلوں میں قید 200 کے قریب جہادی رہا ہو جائیں گے۔ فرانس کے سیکیورٹی عہدیدار ملک کے قانون سازوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ انسدادِ دہشت گردی سے متعلق نئے قوانین کی منظوری دیں، تاکہ رہا ہونے والوں پر اضافی بندشیں لگائی جا سکیں اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پولیس کو نئے قانونی اختیارات حاصل ہو سکیں۔
اسی طرح برطانوی عہدیداروں کو بھی پھر سے ابھرتے ہوئے جہادی خطرے کا خدشہ ہے، جس سے نمٹنے کے لیے وہ برطانیہ کے 650 سال پرانے غداری اور بغاوت سے متعلق قانون پر نظرثانی کرنے پر غور کر رہے ہیں تاکہ شام اور عراق سے واپس آنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف قانونی کارروائی میں آسانی پیدا ہو سکے۔
یورپ کے سیکیورٹی عہدیداروں کو صرف مشرقی بحیرۂ روم کے علاقے کے ممالک سے لوٹنے والے جہادیوں سے ہی خطرہ لاحق نہیں بلکہ اس میں اور عوامل بھی شامل ہیں۔
عالمی وبا کے دوران جہادی حملوں میں کمی تو ہوئی، لیکن عہدیداروں کے خیال میں سفری پابندیوں اور مکمل لاک ڈاؤن کے دوران مستقبل کے حملہ آوروں کی آن لائین سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔ ان نئے حملہ آوروں کو کس چیز نے روکے رکھا؟ سیکیورٹی عہدیداروں کے مطابق،اجتماعات کی کمی اور عوامی تقریبات نہ ہونے کی وجہ سے بھی عسکریت پسندوں کیلئے کوئی ہائی پروفائل اہداف نہیں تھے۔
تاہم، عہدیداروں کے مطابق، اسی دوران، شدت پسندوں کی آن لائن سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔
لندن کی میٹرو پولیٹن پولیس میں خصوصی کارروائیوں سے متعلق اسسٹنٹ کمشنر، نِیل باسو نے اسی ہفتے اخبار 'دی ٹائمز' کو بتایا کہ انہیں خدشہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران ایسے نوجوانوں کو آن لائین پراپیگنڈے سے متاثر کیا گیا، جو ذہنی طور پر ناپختہ تھے ۔ ایسے نوجوان عالمی وبا کے دوران بڑھتے ہوئے آن لائین پروپیگنڈہ کا شکار ہوئے۔
وائس آف امریکہ کے جیمی ڈیٹ مر کی رپورٹ کے مطابق، انسداد دہشت گردی سے متعلق عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ امکان موجود ہے کہ نئی بھرتیاں کی گئی ہوں، اور یوں اکیلے کارروائی کرنے والوں اور جیل میں قید درجنوں جہادیوں کی رہائی کے باہم ملاپ سے ایک مبینہ ''زہریلا امتزاج'' سامنے آ جائے۔
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ آن لائن شدت پسندی کی تحقیقات کی کوشش کے ساتھ ساتھ، رہائی پانے والے جہادیوں پر نظر رکھنے کیلئے ان پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ آن لائن بھرتیوں کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ فرانس کی سر زمین پر ہونے والے گزشتہ 8 حملوں میں ملوث حملہ آور سیکیورٹی حکام کیلئے بالکل نئے نام تھے۔
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس وقت فرانس کی جیلوں میں 500 جہادی قید ہیں۔ ان میں زیادہ تر شام اور عراق میں سرگرم داعش یا القاعدہ کے ساتھ شامل ہوئے یا ان کی مدد کرتے رہے۔ ان میں سے 58 اوسطًا 5 سال کی سزا کاٹنے کے بعد اس سال رہا ہو جائیں گے۔ ان میں سے 100 کے قریب مزید جہادی سال 2023 میں رہا کئے جائیں گے۔
انسدادِ دہشت گردی سے متعلق اقدامات کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد فرانس کی سکیورٹی سروسز کو نئے اختیارات حاصل ہو جائیں گے، جن کے تحت، بقول ان کے، رہا ہونے والوں پر نظر رکھنے اور آن لائن سرگرمیوں کی نگرانی کے کام میں اور مبینہ حملہ آوروں کو پکڑنے میں مدد ملے گی۔
ان نئے اقدامات سے حکام کو اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ مبینہ شدت پسندوں کے درمیان خفیہ زبان میں رابطوں کی جانچ پڑتال کر سکیں گے۔
فرانس میں ایک سکول کے استاد کو ایک 18 سالہ چیچن نے ہلاک کیا تھا جو شام میں سرگرم فرانسیسی جہادیوں سے انسٹاگرام کے ذریعے رابطے میں تھا۔
سکیورٹی سروسز کو یہ اختیار بھی حاصل ہوگا کہ وہ شدت پسند ویب سائٹوں سے مشاورت لینے والوں کو ڈھونڈ نکالیں گے اور اس کے علاوہ انہیں سیٹلائٹ کمیونیکیشن تک بھی رسائی حاصل ہو جائے گی۔
نئے اقدامات کی منظوری کی مدد سے رہائی کے بعد جہادیوں کی نگرانی کا وقت ایک سال سے بڑھا کر دو سال کر دیا جائے گا۔ عدالتوں کو مزید اختیارات حاصل ہو جائیں گے کہ وہ رہا ہونے والوں کو احکامات جاری کر سکیں گے کہ وہ زیادہ تواتر سے اپنے پروبیشن افسران سے ملاقات کریں اور رہا ہونے کے بعد 5 سال تک تربیتی سکیموں میں اندراج کروائیں۔
برطانیہ کی حکمران کنزرویٹو حکومت نے بھی حال ہی میں ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت دہشت گردی کے سنگین جرائم میں ملوث افراد کی جلد رہائی ختم کر دی گئی ہے۔
حکومت ایسے نئے اقدامات پر بھی غور کر رہی ہے جس کے تحت غیر ممالک سے واپس آنے والے برطانوی جہادیوں کے خلاف قانونی کارروائی میں آسانی ہو اور مجرم ثابت ہونے پر انہیں طویل مدت کیلئے جیل میں بند رکھا جا سکے، بلکہ ممکنہ طور پر عمر قید کی سزا دی جا سکے گی۔
وزرا کا کہنا ہے کہ وہ بغاوت اور غداری سے متعلق قوانین پر نظرثانی پر غور کر رہے ہیں تاکہ برطانیہ کو نقصان پہنچانے کی خواہش رکھنے والے غیر ریاستی کرداروں کے ارکان یا ان کی مدد کرنے والوں کی نگرانی کے کام کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان میں دہشت گرد گروپ اور ہیکر بھی شامل ہوں گے۔
تقریباً 400 کےقریب برطانوی جہادی سن 2011 کے بعد واپس برطانیہ آئے ہیں۔ لیکن ان میں سے صرف 10 فیصد کے خلاف ہی قانونی کارروائی کی جا سکی ہے۔
دیگر یورپی ممالک نے بھی حال ہی میں انسداد دہشت گردی سے متعلق اپنے قوانین کو ٹھوس بنانے کا عمل شروع کیا ہے، جس پر اس سال فروری میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے متنبہ کیا تھا کہ ایسے اقدامات سے مسلمان مخالف جذبات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔