برطانیہ کے دارالعوام کی ایک کمیٹی نے کہا ہے کہ روس نے سن 2014 میں اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے لیے ہونے والے ریفرنڈم پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی تا کہ برطانیہ کو توڑ سکے۔
دارالعوام کی کثیر الجماعتی انٹیلی جنس اور سیکیورٹی کمیٹی کی منگل کے روز جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس برطانوی انتخابات کے علاوہ دیگر رائے دہی اور عمومی طور پر برطانوی جمہوریت میں مداخلت کرتا رہا ہے۔
برطانیہ کے خفیہ اداروں کی جانچ پڑتال پر مامور نو رکنی کمیٹی کا کہنا ہے کہ روس نے سوویت دور کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ یورپ میں کسی رائے دہی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔
برطانیہ کے لیے روس کے سفیر آندرے کیلِن نے رپوررٹ میں اخذ کیے گئے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے برطانوی صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ روس کسی دوسرے ملک کے معاملات میں بالکل بھی مداخلت نہیں کرتا۔ روس کے لیے مداخلت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ روس کے لیے چاہے برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کی حکومت ہو یا لیبر پارٹی کی، وہ پہلے کی نسبت زیادہ بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرے گا۔
کمیٹی کے رکن اسٹیورٹ ہوئے زی کا کہنا تھا کہ روس کے اہم ترین اہداف میں سے ایک برطانیہ ہے، اور روس نے غلط معلومات پھیلائیں۔ انہوں نے کہا کہ روس کی سائبر صلاحیت کے بارے میں گہرے خدشات پائے جاتے ہیں اور یہ ملک کی قومی سلامتی کے لئے فوری خطرے کا باعث ہے۔
کمیٹی نے کہا ہے کہ روس کی جانب سے سیاسی مداخلت مختلف اشکال میں ہوتی ہے، جن میں غلط معلومات کو فروغ دینا یا کسی مخصوص فریق کی اہمیت کو کم کرنا شامل ہیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ روس کا برطانیہ میں اثر و نفوذ اب ایک 'نیا معمول' سا بن چکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرکاری تحویل میں چلنے والے آر ٹی اور سپُٹنِک جیسے میڈیا ادارے، غلط اور بے بنیاد خبریں اور متنازع معاملات پھیلانے کے ذرائع ہیں، اور روس نے ٹوئٹر، یو ٹیوب اور فیس بُک جیسی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی اکاؤنٹ کھولے ہوئے ہیں جو بے بنیاد خبروں کو ٹرول کرتے ہیں۔
کمیٹی نے برطانیہ کے مختلف خفیہ اداروں، جن میں ایم آئی سکس، ایم آئی فائیو اور جی سی ایچ کیو کے ساتھ ساتھ ماہرین کے بیانات ریکارڈ کیے۔ کمیٹی کو خفیہ انٹیلی جنس مواد بھی فراہم کیا گیا اور برطانوی سیاسی جماعتوں کو روس کے ساتھ تعلق رکھنے والے افراد اور اداروں کے عطیات کے بارے میں بھی خبردار کیا گیا۔ اس کے علاوہ کمیٹی کو لندن شہر میں روسی رقوم کے اثر و نفوذ کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔
رپورٹ میں برطانوی سیاست دانوں، کارباری شخصیات، وکلا، ریئل اسٹیٹ ایجنٹوں، اکاؤنٹنٹ حضرات اور بینکروں کو کریملن سے جڑی شخصیات کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے کے بارے میں متنبہ کیا گیا ہے۔
کمیٹی نے برطانوی دارالامرا کے اراکین پر بھی تنقید کی ہے جنہوں نے گزشتہ عشرے کے دوران برطانیہ میں روسی پیسے کی آمد کیلئے مجاز و مختار کا کردار ادا کیا ہے، اور لندن کو روسیوں کے کالے دھن کو سفید کرنے کے مرکز میں تبدیل کر کے خود بھی اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف افراد اور اداروں نے روس کے ناجائز پیسے کو جائز بنانے کیلئے منتظمین کا کردار ادا کیا ہے، اور روسی اشرافیہ کیلئے لابئنگ کی ہے، اور یوں، روسیوں کے اثر و نفوذ کو مضبوط بنا کر شعوری یا غیر شعوری طور پر بد نیتی پر مبنی روسی مفادات کو فروغ دیا ہے۔
کمیٹی نے روسی سرمایاکاری پر کڑی نگرانی سے متعلق سخت ضوابط متعارف کروانے کی سفارشات کی ہیں۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ کریملن اور روسی صدر ولیدیمیر پیوٹن کے دوستوں نے برطانیہ میں کاروبار کر کے اپنے آپ کو معتبر بنایا ہے، ویسٹ منسٹر اور شہر میں تعلقات قائم کر کے، اپنی رقوم کو سیاسی اثر و نوفذ کیلئے استعمال کیا ہے۔
کمیٹی نے قدامت پرست کنزرویٹو پارٹی اور لیبرپارٹی دونوں جماعتوں کی یکے بعد دیگرے حکومتوں پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے یہ واضح ہو جانے کے بعد بھی صدر پیوٹن، برطانیہ اور مغرب کےخلاف جارحانہ عزائم رکھتے ہیں، روس کے ساتھ کچھ زیادہ ہی نرم رویہ برتا ہے۔
کریملن کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے سیاسی مبصر اور روسی حکومت کے مشاورتی پینل کے رکن، سرگئی مارکوف نے رپورٹ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں پیش کئے گئے نتائج کا پہلے سے ہی علم تھا۔
سرگئی کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ کے اجرا سے چند روز پہلے ہی، برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومنِک راب نے دعویٰ کیا تھا کہ برطانیہ میں سن 2019ء کے عام انتخابات میں مداخلت کی روسی کوشش تقریباً حقیقی ہے۔
برطانیہ کی سابق وزیر برائے سیکیورٹی، پولین نیوائلجونز کا منگل کے روز کہنا تھا کہ انہیں شک ہے کہ روس نے بریگزٹ ریفرینڈم پر اثر انداز ہونے کیلئے سائیبر اور سوشل میڈیا کی نوعیت کی کارروائیاں کی تھیں۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ نے حال ہی میں روس پر نئی تعزیرات عائد کرنے کے امکانات کا اشارہ دیا ہے۔ اس سے پہلے، سن 2014ء میں روس کے کرائمیا پر قبضے اور پھر برطانیہ میں مقیم ایک منحرف روسی ایجنٹ کو زہریلی گیس سے ہلاک کرنے پر بھی برطانیہ نے روس پر پابندیاں عائد کی تھیں۔