امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ اسد حامی فوجیوں کے حملوں کے بارے میں موصولہ رپورٹوں میں متعدد شہریوں کی ہلاکت کی خبریں ’دہشتناک‘ ہیں؛ اور، ’اِن وحشیانہ کارروایوں‘ کی مذمت کی ہے
واشنگٹن —
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ وہ شام میں خونریزی بند کرانے کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم پر قائم ہیں۔
دونوں لیڈر وں نے جمعے کو بحیرہ اسود کے ساحلی شہر ،سوقی میں ملاقات کی، جس دوران مسٹر کیمرون نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ برطانیہ، روس اور امریکہ کو فوری طور پرمزید اقدام کرنا ہوگا، کیونکہ شام کے شہری خون سےاپنی تاریخ تحریر کر رہے ہیں۔
برطانوی وزیر اعظم نے امریکہ اور روس کی طرف سے اِسی ہفتے بین الاقوامی کانفرنس میں طے پانے والے سمجھوتے کی کھل کر توثیق کرنے پر زور دیا، جس میں امن مذاکرات کے لیے ایک بین الاقوامی اجلاس بلانے کے لیے کہا گیا ہے، جس میں حکومتِ شام اور مخالفین گروپوں کے مابین بات چیت پر زور دیا گیا ہے۔
مسٹر پیوٹن نے کہا کہ مسٹر کیمرون نے اس تنازعے کے خاتمے کے سلسلے میں کئی ایک مشترکہ امکانی اقدامات لینے پر بات کی۔
مخالفین کی طرف سے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے حکومت شام اور باغیوں کے درمیان لڑائی میں اب تک 70000سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ شام ایک طویل عرصے سے روس کا اتحادی ہے۔
مسٹر کیمرون نے کہا کہ روس کے ساتھ اختلافات کے باوجود، دونوں ممالک اس بات کی ضرورت سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایک ایسی عبوری حکومت کو تشکیل دیا جائے جس پر وہ بھروسہ کرسکیں کہ وہ اُن کا تحفظ کرنے کے قابل ہے۔
جمعے ہی کے روز، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے فوری اقدام کا مطالبہ کیا۔
نوی پلے نے کہا بیضا کے شام کے مغربی گاؤں میں مشتبہ قتل عام کی تصاویر ’دہشتناک‘ ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ اُن مخصوص برادریوں کو ہدف بنایا جارہا ہے جو مخالفین کی حمایت کرتے ہیں۔
پلے نے اِس تشویش کا اظہار کیا کہ اس بات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ قصیر کے مغربی قصبے کے قریب فوج اکٹھی ہو رہی ہے، جس سے اس انتباہ کا احساس ہوتا ہے کہ لڑائی کی صورت میں کئی معصوموں کی جانیں جا سکتی ہیں۔
گذشتہ ہفتے شام کے مخالف گروپوں نے بدایہ کے گاؤں میں مسٹر اسد کی حامی فوجوں پر کم از کم 150شہریوں کو ہلاک کرنے کا الزام لگایا، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ بدایہ میں سنی آبادی کی اکثریت آباد ہے، جو ملک کی باغیانہ تحریک میں پیش پیش ہیں۔
امریکی محکمہٴخارجہ نے کہا ہے کہ حملوں کے بارے میں موصولہ خبروں میں متعدد شہریوں کی ہلاکت کی خبریں ’دہشتناک‘ ہیں، اور ’اِن وحشیانہ کارروایوں‘ کی مذمت کی ہے۔
دونوں لیڈر وں نے جمعے کو بحیرہ اسود کے ساحلی شہر ،سوقی میں ملاقات کی، جس دوران مسٹر کیمرون نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ برطانیہ، روس اور امریکہ کو فوری طور پرمزید اقدام کرنا ہوگا، کیونکہ شام کے شہری خون سےاپنی تاریخ تحریر کر رہے ہیں۔
برطانوی وزیر اعظم نے امریکہ اور روس کی طرف سے اِسی ہفتے بین الاقوامی کانفرنس میں طے پانے والے سمجھوتے کی کھل کر توثیق کرنے پر زور دیا، جس میں امن مذاکرات کے لیے ایک بین الاقوامی اجلاس بلانے کے لیے کہا گیا ہے، جس میں حکومتِ شام اور مخالفین گروپوں کے مابین بات چیت پر زور دیا گیا ہے۔
مسٹر پیوٹن نے کہا کہ مسٹر کیمرون نے اس تنازعے کے خاتمے کے سلسلے میں کئی ایک مشترکہ امکانی اقدامات لینے پر بات کی۔
مخالفین کی طرف سے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے حکومت شام اور باغیوں کے درمیان لڑائی میں اب تک 70000سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ شام ایک طویل عرصے سے روس کا اتحادی ہے۔
مسٹر کیمرون نے کہا کہ روس کے ساتھ اختلافات کے باوجود، دونوں ممالک اس بات کی ضرورت سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایک ایسی عبوری حکومت کو تشکیل دیا جائے جس پر وہ بھروسہ کرسکیں کہ وہ اُن کا تحفظ کرنے کے قابل ہے۔
جمعے ہی کے روز، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے فوری اقدام کا مطالبہ کیا۔
نوی پلے نے کہا بیضا کے شام کے مغربی گاؤں میں مشتبہ قتل عام کی تصاویر ’دہشتناک‘ ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ اُن مخصوص برادریوں کو ہدف بنایا جارہا ہے جو مخالفین کی حمایت کرتے ہیں۔
پلے نے اِس تشویش کا اظہار کیا کہ اس بات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ قصیر کے مغربی قصبے کے قریب فوج اکٹھی ہو رہی ہے، جس سے اس انتباہ کا احساس ہوتا ہے کہ لڑائی کی صورت میں کئی معصوموں کی جانیں جا سکتی ہیں۔
گذشتہ ہفتے شام کے مخالف گروپوں نے بدایہ کے گاؤں میں مسٹر اسد کی حامی فوجوں پر کم از کم 150شہریوں کو ہلاک کرنے کا الزام لگایا، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ بدایہ میں سنی آبادی کی اکثریت آباد ہے، جو ملک کی باغیانہ تحریک میں پیش پیش ہیں۔
امریکی محکمہٴخارجہ نے کہا ہے کہ حملوں کے بارے میں موصولہ خبروں میں متعدد شہریوں کی ہلاکت کی خبریں ’دہشتناک‘ ہیں، اور ’اِن وحشیانہ کارروایوں‘ کی مذمت کی ہے۔