لندن میں جاری تشدد کی وجہ سے وہاں کی مسلمان آبادی میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے۔
ہاؤس آف لارڈزکےرُکن، لارڈ نذیراحمدکا کہنا تھا کہ ہلاک ہونےوالےتین پاکستانی نژاد برطانوی نوجوان بےقصورتھے۔
بدھ کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں اُنھوں نے بتایا کہ یہ پاکستانی نوجوان تراویح پڑھنے کے بعد واپس آرہے تھے۔ یہ معلوم ہونے پر کہ کچھ شرپسند ایک قریبی پیٹرول پمپ کو لوٹنے والے ہیں، تحفظ اورنگرانی کے لیے وہ فٹ پاتھ پر کھڑے تھے کہ جرائم پیشہ افراد نے ایک گاڑی اُن پر چڑھا دی۔
لارڈ نذیر کا کہنا تھا کہ لوٹ مار اور آتش زنی کے واقعات میں ٹھگ اور جرائم پیشہ لوگ ملوث ہیں۔
اُن کے بقول، خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ انگلش ڈفنس لیگ کے نسل پرست لوگ بھی مبینہ طور پر صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، مساجد یا مسلمانوں پر حملے کر سکتے ہیں۔اُنھوں نے کہا کہ، ’ابھی تک، حکومت کا ردِ عمل سخت نوعیت کا رہا ہے ‘۔
اَس حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ حکومت نے حساس علاقےمیں سلامتی کے لیے دوسرے علاقوں سے پولیس بلوالی ہے، جِن میں لندن، برمنگھم، ٹوٹنگھم اور مانچیسٹر شامل ہیں۔
دوسری طرف، صورتِ حال زیادہ خراب ہونے کی صورت میں حکومت نے واٹر کینن یا پلاسٹک کارتوس کےاستعمال جیسے دوسرے آپشن کی بات کی ہے جِنھیں ماضی میں شمالی آئرلینڈ میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: