ایک برطانوی ہسپتال میں اعضاء کی پیوند کاری کے شعبے میں پہلی بار ایک نوجوان لڑکی کے گردے کی پیوند کاری ایک پانچ ہفتے کے بچے کے عطیہ شدہ گردے سے کی گئی ہے ۔
لندن —
ایک نوزائیدہ بچہ اعضاء عطیہ کرنے کے حوالے سے برطانیہ کا سب سے کم عمر ڈونر بن گیا ہے جس کے عطیہ شدہ ننھے گردے نے ایک نوجوان لڑکی کی جان بچا لی ہے۔
برطانوی ہسپتال میں اعضاء کی پیوند کاری کے شعبے میں پہلی بار ایک نوجوان لڑکی کے گردے کی پیوند کاری ایک پانچ ہفتے کے بچے کے عطیہ شدہ گردے سے کی گئی ہے۔
اسکائی ٹی وی کی خبر کے مطابق، ہیلی فیکس کی رہائشی 22 سالہ سمیرا کوثر کے گردے 90 فیصد کام کرنا چھوڑ چکے تھے اور انھیں ہر روز رات میں نو گھنٹے ڈائیلیسسز کروانا پڑتا تھا تاہم ان کی جان ایک نوزائیدہ بچے کے عطیہ شدہ گردے نے بچا لی ہے ۔
رواں برس کے اوائل میں لیڈز میں واقع 'سینٹ جیمز یونیورسٹی ہسپتال ' میں ڈاکٹر 'نیاز احمد ' کی نگرانی میں سات گھنٹے پر مشتمل گردے کی پیوند کاری کا آپریشن کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر احمد نے بتایا کہ بچے کا گردہ اسوقت محض 4 سینٹی میٹر لمبا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ انھیں خبر ملی کہ ایک پانچ ہفتے کے بچے کی شدید انفیکشن کے بعد حرکت قلب رکنے سے موت واقع ہو گئی ہے اور بچے کے والدین نے کسی انسان کی جان بچانے کے لیے بچے کا گردہ عطیہ کرنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر احمد کے مطابق ، آپریشن کے چھ ماہ بعد تک سخت احتیاط اور نگرانی میں مریضہ کی دیکھ بھال کی گئی اور 6 ماہ بعد جبکہ گردہ تقریبا 7 سینٹی میٹر لمبا ہو گیا ہے اور بالکل ٹھیک کام کر رہا ہے اسے ایک کامیاب آپریشن قرار دے دیا گیا ہے۔
سرجنز کا کہنا ہے کہ یہ ننھا گردہ ایک بالغ انسان کے گردے کا 75 فیصد فعال بنانے کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
کوثر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ، ''مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ،آدھی رات کے وقت سرجن نےاطلاع دی کہ ایک کم سن بچے کا گردہ عطیہ کے طور پر مل گیا ہے۔ اس خبر نے مجھے بہت اداس کر دیا اور مجھے بچے کے والدین کے دکھ کا سوچ کر بہت تکلیف ہو رہی تھی اور ساتھ ہی بہت ڈر لگ رہا تھا لیکن مجھے اس مرحلے سے گزرنا تھا ۔ ''
انھوں نے کہا کہ ،''میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ بچے کے والدین کے اس بیش قیمت تحفے کا شکریہ ادا کر سکوں جس کی وجہ سے مجھے نئی زندگی ملی ہے ۔''
ڈاکٹر احمد کا کہنا تھا کہ ،معاشرہ میں ایک کم عمر بچے کے اعضاء سے پیوند کاری کو معیوب سمجھا جاتا ہے ساتھ ہی لوگوں کی برسوں پرانی سوچ کا ماننا ہے کہ ، ایک چھوٹا گردہ مکمل طور پرایک بالغ شخص کے گردے کے تمام افعال انجام نہیں دے سکتا ہے
لیکن حالیہ دنوں میں عطیہ شدہ اعضاء کی شدید قلت پائی جاتی ہے اور اعضاء عطیہ کی انتطار کی فہرست میں سے ہر روز تین افراد مر رہے ہیں ایسی صورت حال میں ہمیں ایسا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا پڑا ۔
لیکن حالیہ دنوں میں عطیہ شدہ اعضاء کی شدید قلت پائی جاتی ہے اور اعضاء عطیہ کی انتطار کی فہرست میں سے ہر روز تین افراد مر رہے ہیں ایسی صورت حال میں ہمیں ایسا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا پڑا ۔
ان کا کہنا تھا کہ جذباتی طور پر یہ بہت مشکل کام ہے کہ ایک ایسے بچے کے والدین سے اعضاء کے عطیہ کے بارے میں سوال کیا جائے جو اپنے بچے کو کھونے کا دکھ اٹھا رہے ہوں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ، بالغ افراد کے اعضاء کی پیوند کاری نومولود بچوں کے اعضاء مثلا دل ، جگر ، گردے اور پھپھڑوں سے کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ اعضاء ماں کے پیٹ میں 37 ہفتوں میں مکمل کام کرنا شروع کر دیتے ہیں لہذا پیوند کاری کے بعد اعضاء کی نشوونما جاری رہتی ہے ۔
برطانیہ میں اعضاء کے عطیہ کی کمیٹی کی جانب سے ایسے کم عمر بچوں کے اعضاء کے عطیہ کے حوالے سے غور کیا جا رہا ہے جنھیں دماغی طور پر مردہ قرار دیا جاتا ہے لیکن وینٹیلیٹر کے ذریعے مصنوعی طور پر ان کی دل کی دھڑکن کو بحال رکھا جاتا ہے ۔
'برٹش ایسوسیشن آف پیرینیٹل میڈیسن ' سے تعلق رکھنے والے 'جو برئیرلی ' نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب ہزاروں لوگ اعضاء کے عطیہ کی انتطار کی فہرست میں موجود ہیں بچوں سے اعضا ء عطیہ لینا ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے ۔