برطانیہ میں 5G فون نیٹ ورک کی تعمیر میں چین کی ٹیلی کام کی بہت بڑی کمپنی 'ہواوے' شریک تھی۔ لیکن اب برطانیہ اس کی شراکت داری ختم کر رہا ہے، جو ایک طرح سے برطانیہ اور چین کے درمیان کشیدہ تعلقات کی طرف ایک اور واضح اشارہ ہے۔
برطانیہ اور چین کے درمیان پہلے سے بگڑتے ہوئے تعلقات میں اس فیصلے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا۔
برطانیہ چینی ٹیلی کام کمپنی ہواوے کی اپنے ملک میں 5 G فون نیٹ ورک کی تعمیر میں شراکت داری کو ختم کر رہا ہے۔ برطانوی میڈیا رپورٹوں کے مطابق پالیسی میں اس بڑی تبدیلی سے ایک طرف چین کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو گا تو دوسری طرف امریکہ بہت خوش ہو گا۔
برطانوی اخبار سنڈے ٹیلی گراف کے مطابق اس فیصلے سے قبل برطانیہ کے نیشنل سائیبر سیکیورٹی سینٹر نے جائزہ لینے کے بعد حکومت سے کہا تھا کہ چینی کمپنی کی موجودگی سے کئی خطرات پیدا ہونے کا امکان ہے۔
برطانوی حکام نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان خبروں کی تصدیق کی ہے۔
برطانیہ کا نیشنل سائیبر سیکیورٹی سینٹر وہاں کی انٹیلی جینس ایجنسی (GCHQ) کا ایک حصہ ہے۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ چینی کمپنی ہواوے برطانیہ کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہے۔ اس انتباہ کے بارے میں امریکی انٹلی جینس کو آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ پچھلے ماہ جب امریکہ نے ہواوے پر پابندیاں لگائیں تو صورت حال تبدیل ہو گئی۔
برطانوی حکام نظام الاوقات طے کر رہے ہیں، جس کے اندر ہواوے کو برطانیہ میں نصب اپنے آلات ہٹانے ہوں گے۔ چینی کمپنی ہواوے چاہتی ہے کہ اسے اپنے آلات ہٹانے کے لیے 2030 تک کی مہلت دی جائے، مگر برطانوی حکومت اس کام کو جلد از جلد مکمل کروانا چاہتی ہے۔
ہانگ کانگ کے معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان تنازع بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔ برطانیہ نے حال ہی میں ہانگ کانگ کے شہریوں کو اپنے ملک میں مستقل رہائیش کی جو پیش کش کی ہے، اس پر چین نے شدید احتجاج کیا ہے۔
گذشتہ ایک سال سے ٹرمپ انتظامیہ برطانیہ اور اپنے دیگر اتحادیوں سے ہواوے پر پابندیاں لگانے کے لیے کہہ رہی تھی۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ وائرلیس نیٹ ورکس کی پانچویں نسل یا 5 G فون نیٹ ورک کی تیاری میں ہواوے شریک کار ہو۔ امریکہ کا خیال کہ اس کمپنی کا چین کے انٹیلی جینس اداروں سے قریبی تعلق ہے۔ امریکہ نے انتباہ کیا تھا کہ اس کمپنی سے تعلق کے بعد برطانیہ اور امریکہ کے درمیان انٹیلی جینس رابطوں میں دراڑ پڑ سکتی ہے اور اطلاعات کے تبادلے میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ برطانوی وزیر اعظم کو ملک اور اپنی پارٹی کی طرف سے بھی دباؤ کا سامنا تھا۔ یہ دباؤ کرونا وائرس کے بعد اور بھی بڑھ گیا کہ جانسن اپنے فیصلے کو تبدیل کریں۔ مخالفت کرنے والوں میں قدامت پرست پارٹی کے اراکین بھی شامل ہو گئے ہیں۔ اور اس طرح آخرکار بورس جانسن کو یہ فیصلہ کرنا پڑا۔
برطانیہ اور چین کے درمیان 71 اہم اشیا کے شعبوں اشتراک ہے، جس میں ادویات سے لے کر الیکٹرانکس اور ٹیلی کام کے شعبے شامل ہیں۔
برطانیہ کے ہواوے کے ساتھ قطع تعلق کے بعد اب کینیڈا واحد ملک رہ گیا ہے، جس نے ابھی تک ہواوے کو دیس نکالا نہیں دیا ہے۔ جن پانچ ملکوں کے درمیان انٹیلی جینس کا تبادلہ ہوتا ہے، ان میں امریکہ، برطانیہ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور برطانیہ شامل ہیں۔ انہیں پانچ آنکھیں بھی کہا جاتا ہے۔
اتوار کو ہواوے نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ وہ برطانیہ سے کھلے دل کے ساتھ بات چیت کے لے تیار ہے۔ کمپنی کے ترجمان نے کہا کہ ہواوے دنیا میں ایک قابل بھروسا کمپنی سمجھی جاتی ہے اور برطانیہ کے ساتھ ہم شفاف طریقے سے کام کرتے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم برطانیہ کی گیگا بائٹ کو بڑھانے کے سلسلے میں قابل اعتماد شراکت داری میں اپنا کردار اب بھی ادا کر سکتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس وقت ہمیں افواہوں کے بجائے حقائق پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔