برطانوی مسلمان خواتین نے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے اس دعویٰ کو چیلنج کیا ہے کہ وہ 'روایتی طور پر اطاعت شعار' ہیں اور اپنی برادرایوں میں فعال کردار ادا نہیں کرتی ہیں۔
پچھلے ہفتے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ملک میں انتہا پسندی سے مقابلے کے ایک طریقے کے طور پر مسلمان خواتین کو انگریزی زبان سیکھنے کے لیے کہا تھا۔
وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ برطانیہ میں رہنے والی 20 فیصد سے زائد تارکین وطن مسلمان خواتین انگریزی میں بات نہیں کر سکتی ہیں جنھیں انگریزی سکھانے کے لیے انھوں نے دو کروڑ پاؤنڈ کا فنڈ جاری کیا ہے۔
وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے مسلمان خواتین پر تبصرے کے ردعمل میں بہت سی مسلمان خواتین نے انھیں اپنی پیشہ ورانہ کامیابیوں کے بارے میں بتانے کے لیے ٹوئیٹ کرنا شروع کی ہیں۔
روزنامہ ’ٹیلی گراف‘ کے مطابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ بنیاد پرستی کو فروغ دینے والے عوامل میں سے ایک مسلمان خواتین کا روایتی طور پر بہت زیادہ اطاعت شعار ہونا ہے اور یہ انھیں بنیاد پرست اماموں کے اثر و رسوخ کے خلاف بولنے سے روکتا ہے۔
اتوار کی شام برطانوی مسلمان خواتین نے ٹوئٹر کے رجحان ہیش ٹیگ #traditionally submissive یعنی ’روایتی فرمانبردار‘ استعمال کرتے ہوئے اپنی تصاویر اپ لوڈ کی ہیں۔
اس مہم میں شامل ہونے والی کچھ خواتین نے اپنی ٹوئیٹ میں کہا کہ وہ روایتی فرمانبردار تھیں اور اس کے ساتھ انھوں نے اپنی وسیع قابلیت اور پیشہ ورانہ کامیابیوں کو اجاگر کیا ہے۔
ایک خاتون نے گریجویشن کا گاؤن پہن کر اپنی تصویر ٹوئٹر پر اپ لوڈ کی ہے، جس میں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک مطیع عورت ہونے کے ساتھ گریجویشن مکمل کی۔
ایک خاتون آسیہ وارثی اپنی ٹوئیٹ میں کہتی ہیں کہ میں چار زبانوں گجراتی، اردو، کشمیری اور انگریزی میں بات کر سکتی ہوں، آپ کتنی زبانوں میں بات کر سکتے ہیں؟
زینب نے ٹوئیٹ کی کہ میں ایک اسکول میں ٹین ایجر برطانوی بچوں کی انگریزی کی استاد ہوں کیا مجھے بھی انگریزی سیکھنی چاہیئے؟
افرا نے روایتی فرمانبردار ہیش ٹیگ کے ساتھ لکھا کہ میں نے انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے میں روایتی اطاعت شعار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلاگر اور ٹی وی اینکر ہوں۔
فزا اسلم نے ٹوئیٹ کے ساتھ اپنی ایک تصویر اپ لوڈ کی ہے جس میں وہ لکھتی ہیں کہ میں بائیس برس سے نیشنل ہیلتھ سینٹر این ایچ ایس میں ملازمت کر رہی ہوں اور انگریزی سمیت پانچ زبانیں بولنا جانتی ہوں۔
انھوں نے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان خواتین مسئلہ نہیں ہیں جسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹوئٹر پر یہ مہم شروع کرنے والی سوکینا ہرجی نے بز فیڈ کو بتایا کہ برطانوی وزیر اعظم نے جس طرح برطانوی مسلمانوں خواتین کا تاثر پیش کیا ہے اس سے ہماری دل آزاری ہوئی ہے۔
اس مہم کو شروع کرنے میں مدد کرنے والی مصنف شیلینا جان محمد ا نے کہا کہ وزیر اعظم کو دیگر مسائل کے لیے فکر مند ہونا چاہیئے جو مسلمان خواتین کو عوامی زندگی میں شامل ہونے سے روکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مسلمان خواتین کو باہر اسلامو فوبیا کا سامنا ہے اور روزگار کی مارکیٹ میں انھیں بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک ٹوئیٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے مسلمان خواتین کی بڑی تعداد کو یکسر نظر انداز کردیا ہے جو عوامی زندگی میں شراکت داری کر رہی ہیں۔
اس مہم میں ناصرف مسلمان خواتین شامل ہوئی ہیں بلکہ اسکاٹش سیاسی جماعت ایس این پی کے رکن پارلیمنٹ حمزہ یوسف نے بھی اپنے خاندان کی خواتین کے ساتھ ایک تصویر ٹوئیٹ کی ہے جس میں انھوں نے اپنے گھر کی خواتین کو خاندان کی رول ماڈل بتایا ہے۔
ہیری پوٹر ناول کی برطانوی مصنفہ جے کے رولنگ نے بھی مسلمان خواتین کی مہم کی حمایت کرتے ہوئے اپنے ساڑھے چھ لاکھ مداحوں کے لیے ان میں سے بہت سی تصاویر کو ری ٹوئیٹ کیا۔