برطانیہ میں یورپی یونین کی رکنیت جاری رکھنے کے سوال پر اگلے ہفتے ریفرنڈم ہو رہا ہے، جس میں عوام یہ طے کریں گے کہ آیا برطانیہ کو یونین میں رہنا چاہیئے یا پھر اس یورپی اتحاد سے الگ ہوجانا چاہیئے۔
دیکھا جائے تو بظاہر سیدھے سادھے اس سوال کا جواب کافی ٹیڑھا ہےجیسا کہ برطانوی وزیر خزانہ جارج اوسبورن کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے جبکہ وزارت خزانہ کی طرف سے جاری ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یورپی یونین سے انخلا کی صورت میں 2030تک برطانوی معیشت چھ فیصد تک سکڑ جائے گی ۔
اس تمام صورت حال کے باوجود یونین سے علحیدگی کے حامی اسے ایک بےجواز خوف قرار دیتے ہیں دوسری جانب عوامی جائزوں کے نتائج اس بات کا اشارہ کر رہے ہیں کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علحیدگی کی مہم جسے بریٹن ایگزٹ یا مختصرا بریگزٹ کہا جا رہا ہے، اس کی حمایت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
یورپی یونین کے رکن ملکوں کی تعداد 28 ہے جس میں برطانیہ بھی شامل ہے۔ یورپی یونین میں رہنے یا چھوڑنے کے سوال پر 23 جون کو ریفرنڈم ہو رہا ہے اور اب یورپی یونین کے ووٹ کے لیے مہم آخری حصے میں داخل ہو گئی ہے۔
ہفتے کے روز جاری ہونے والے او آر بی کے ایک جائزے سے یہ ظاہر ہوتا ہےکہ یونین سے علحیدگی کی مہم کی پشت پناہی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔
تازہ ترین جائزے کے نتائج کے مطابق یورپی یونین کی رکنیت بحال رکھنے کےحق میں چلائی جانے والی مہم کےمقابلے میں اس اتحاد سے علحیدگی کی مہم نے 10 پوائنٹس کی سبقت حاصل کر لی ہے۔
یونین سے علحیدگی کی مہم کو 55 فیصد لوگوں کی حمایت ملی ہے اور 45 فیصد رائے عامہ یونین کی حامی ہےجبکہ یہ نتائج برطانوی عوام کی رائے میں واضح تبدیلی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں میں اب تک رکنیت کی حمایت اور مخالفت کرنے والے شہریوں کی تعداد تقریبا برابر رہی ہے ۔
تاہم نئے پول میں اپریل کے سروے کے نتائج کے مقابلے میں یونین سے علحیدگی کی مہم کو مزید چار پوائنٹس کے ساتھ آگے دکھایا گیا ہے،جب یورپی اتحاد سے علحیدگی کی مہم کو 51 فیصد اور یونین کی رکنیت بحال رکھنے کی مہم کو 49 فیصد حمایت حاصل تھی ۔
اس پول سے قبل یو گو سنڈے ٹائمز کے ایک ملک گیر عوامی جائزے سے ظاہر ہوا تھا کہ رکنیت کے سوال پر دارالحکومت لندن منقسم ہے ۔
یوگو کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ یونین سے نکل جانے کے لیے برطانوی حمایت 43 فیصد ہے اور یورپی اتحاد کے لیے 42 فیصدبرطانوی حمایت حاصل ہے جکہ 11 فیصد عوام نے ابھی تک یونین کی حمایت یا مخالفت کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔
قدامت پسند جماعت کے سربراہ برطانوی وزیر اعظم یورپی یونین میں رہنے کے حامی ہیں لیکن یورپی اتحاد کی رکنیت کے معاملے پر انھیں اپنی ہی جماعت میں ایک بڑی داخلی لڑائی لڑنے پڑ رہی ہےان کی مخالفت میں ٹوری کے ایک معروف سیاست دان اور لندن کے سابق میئر بورس جانسن رکنیت چھوڑنے کی مہم کی قیادت کر رہے ہیں ۔
وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون پہلے کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کے ارکان کو یورپی یونین کی رکنیت کے حوالے سے حمایت اور محالفت میں چلائی جانے والی مہم میں شرکت سے نہیں روکیں گے۔
اخبار ٹیلی گراف کے مطابق وزیراعظم کے دفتر ٹین ڈاؤننگ میں یورپی یونین کے ریفرنڈم کے حوالے سے بے چینی بڑھتی جارہی ہے ۔پرائیوٹ ڈیٹا اور عوامی جائزے بریگزٹ کی مقبولیت کو ظاہر کر رہے ہیں،جس نے رکنیت کی حمایت کرنے والے کیمپ میں کھلبلی مچا دی ہے۔
ادھر برطانیہ کی یورپی یونین میں رکنیت بحال رکھنے کے لیے ٹوری کے رہنما رکنیت سے علحیدگی کی مہم کے سربراہ بورس جانسن پر ذاتی حملوں کا سلسلہ شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے وزیر اعظم کی ٹیم بورس جانسن کی حکمت عملی کو ناکام بنانے کے لیے یہ دعوی کر سکتی ہے کہ بورس جانسن رکنیت کی مہم چھوڑنے کی حمایت اس لیےکر رہے ہیں تاکہ وہ خود کو ڈیوڈ کیمرون کا متبادل لیڈر ثابت کرسکیں اور وزرات عظمی کی راہ استوار کرسکیں دوسری طرف اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ ٹوری کی جانب سے بورس جانسن کو نسل پرستانہ جذبات رکھنے والی جماعت یوکپ کے رینما نائجل فراج کے ساتھ منسلک کیا جاسکتا ہے۔
ٹیلی گراف میں ہفتے کو شائع ہونے والے ایک خصوصی ضمیمہ میں برطانوی وزیر اعظم نے رکنیت کے حق میں دلائل دیتے ہوئے یہ کہا کہ میرے نزدیک برطانیہ کا یورپی یونین میں باقی رہنا اس بحث میں برطانوی عوام کا جرات مندانہ فیصلہ ہوگا۔
دوسری جانب لندن کے سابق میئر اور یونین سے علحیدگی کی مہم کے سربراہ بورس جانسن کا کہنا ہے کہ یہ جمہوریت کو مضبوط کرنے ،عالمی سطح پر ابھرنے اور برطانیہ پر اعتماد ظاہر کرنے کا صحیح وقت ہے۔