پاکستان کے شمال مغربی شہر پشاور میں سکھوں کی ایک عبادت گاہ کو تقریباً ستر سال کے بعد حکومت نے اس برادری کے لوگوں کے حوالے کر دیا ہے۔
پشاور کے علاقے ہشت نگری میں تقریباً تین سو سال قبل قائم ہونے والا گورودوارہ بھائی بیبا سنگھ فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے۔ تقسیم ہند کے بعد یہاں سے سکھوں کے بڑی تعداد دیگر علاقوں میں منتقل ہو گئی جس کے بعد یہ عمارت مقامی لوگوں کے تصرف میں آگئی۔
بعد ازاں حکومت نے اس عمارت کو اپنی تحویل میں لیتے ہوئے اس کے ایک حصے میں اسکول اور فنی تربیت کا ادارہ قائم کر دیا۔
سکھ برادری کئی برسوں سے اس عبادت گاہ کو انھیں واپس کرنے کا مطالبہ کرتی آرہی تھی اور بالآخر بدھ کو حکام نے باضابطہ طور پر یہ گورودوارہ سکھ برادری کے حوالے کردیا۔
اس موقع پر منعقدہ تقریب میں سکھ مذہب کے پیروکاروں کے علاوہ مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی شریک ہوئے۔
غیرمسلموں کے لیے صوبائی وزیراعلیٰ کے مشیر سردار سورن سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ ان کے لیے بہت مسرت کا موقع ہے اور خاص طور پر جس طرح سے مقامی آبادی نے اس سارے معاملے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا اس کے لیے وہ ان کے ممنون ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخواہ اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں سکھوں کی ایک قابل ذکر تعداد آباد ہے جن کی اکثریت کاروبار اور حکمت کے شعبے سے وابستہ ہے۔
پشاور کی سکھ آبادی کا کہنا ہے کہ گو کہ ان کے لیے شہر میں گورودوارہ جوگن سنگھ بھی موجود ہے لیکن گوروداورہ بیبا سنگھ کی اپنی ایک تاریخی اہمیت اور ان کی خواہش تھی کہ یہ عبادت گاہ میں ان کے تصرف میں واپس آ جائے۔
بتایا جاتا ہے کہ اس عمارت کے جس حصے میں اسکول قائم تھا وہ بدستور موجود ہے لیکن فنی تربیت کے ادارے کو یہاں سے منتقل کر دیا گیا ہے۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں آباد میں غیر مسلم برادریوں کو ان کے عقائد پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی کے حق کو یقینی بنانے کے لیے تمام ممکنہ اقدام کر رہی ہے اور اس ضمن میں سامنے آنے والی شکایات کا ازالہ کیا جائے گا۔