اقوام متحدہ نے بچوں کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس اقدام کو کم عمر جنگجوؤں کا استعمال بند کرنے کی جانب اہم قدم قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ نے برما میں جنگی کارروائیوں کا حصہ رہنے والے 68 بچوں کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس اقدام کو لڑائی میں کم عمر جنگجوؤں کا استعمال بند کرنے کی جانب اہم قدم قرار دیا ہے۔
عالمی تنظیم کے ساتھ گزشتہ سال جون میں طے پانے والے معاہدے کے بعد ایسے بچوں کی رہائی کا یہ چوتھا عمل ہے۔
تاحال جنگی کارروائیوں میں استعمال یا اُن کے لیے بھرتی کیے گئے 176 بچوں کو اُن کے اہلِ خانہ کے سپرد کیا جا چکا ہے۔
گزشتہ برس برما نے اپنی افواج میں شامل تمام کم عمر فوجیوں کو 2014ء کے اوائل تک رہا کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ’’یونیسیف‘‘ کی برما میں نائب سربراہ شالنی بہوگونہ نے رہائی کے عمل کو ’’مثبت اقدام‘‘ قرار دیا، تاہم اُن کا کہنا تھا کہ برمی افواج میں شامل ’’تمام بچوں کی عام رہائی‘‘ کا وقت آن پہنچا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ برما کو چاہیئے کہ ’’شناخت اور اندراج کے عمل کو مسلسل تیز کیا جائے تاکہ تمام بچوں کی جلد از جلد رہائی ممکن ہو سکے‘‘۔
یونیسیف کی طرف سے جاری کردہ بیان میں برما میں سرگرم تمام ’’غیر ریاستی مسلح گروہوں‘‘ سے بچوں کی بھرتی فی الفور بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق سرکاری افواج کے علاوہ کم از کم سات مسلح گروہ جنگی کارروائی کے لیے بچوں کا استعمال یا اُن کی بھرتی کر رہے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ سرکاری افواج میں یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہے، کیوں کہ وہ فوجیوں کو منحرف ہونے سے روکنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
گزشتہ برس اقتدار سنبھالنے کے بعد سے برمی حکومت نے متعدد اصلاحات کی ہیں جن میں ذرائع ابلاغ پر پابندیوں میں کمی، حکومت مخالف گروہ کے لیے مزید آزادی اور سینکڑوں سیاسی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔
لیکن حقوقِ انسانی کی تنظیموں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ سیاسی اور معاشی اصلاحات کے باوجود برمی فوجی کی جانب سے خصوصاً باغیوں کے زیرِ اثر علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں آئی ہے۔
عالمی تنظیم کے ساتھ گزشتہ سال جون میں طے پانے والے معاہدے کے بعد ایسے بچوں کی رہائی کا یہ چوتھا عمل ہے۔
تاحال جنگی کارروائیوں میں استعمال یا اُن کے لیے بھرتی کیے گئے 176 بچوں کو اُن کے اہلِ خانہ کے سپرد کیا جا چکا ہے۔
گزشتہ برس برما نے اپنی افواج میں شامل تمام کم عمر فوجیوں کو 2014ء کے اوائل تک رہا کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ’’یونیسیف‘‘ کی برما میں نائب سربراہ شالنی بہوگونہ نے رہائی کے عمل کو ’’مثبت اقدام‘‘ قرار دیا، تاہم اُن کا کہنا تھا کہ برمی افواج میں شامل ’’تمام بچوں کی عام رہائی‘‘ کا وقت آن پہنچا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ برما کو چاہیئے کہ ’’شناخت اور اندراج کے عمل کو مسلسل تیز کیا جائے تاکہ تمام بچوں کی جلد از جلد رہائی ممکن ہو سکے‘‘۔
یونیسیف کی طرف سے جاری کردہ بیان میں برما میں سرگرم تمام ’’غیر ریاستی مسلح گروہوں‘‘ سے بچوں کی بھرتی فی الفور بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق سرکاری افواج کے علاوہ کم از کم سات مسلح گروہ جنگی کارروائی کے لیے بچوں کا استعمال یا اُن کی بھرتی کر رہے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ سرکاری افواج میں یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہے، کیوں کہ وہ فوجیوں کو منحرف ہونے سے روکنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
گزشتہ برس اقتدار سنبھالنے کے بعد سے برمی حکومت نے متعدد اصلاحات کی ہیں جن میں ذرائع ابلاغ پر پابندیوں میں کمی، حکومت مخالف گروہ کے لیے مزید آزادی اور سینکڑوں سیاسی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔
لیکن حقوقِ انسانی کی تنظیموں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ سیاسی اور معاشی اصلاحات کے باوجود برمی فوجی کی جانب سے خصوصاً باغیوں کے زیرِ اثر علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں آئی ہے۔