تاہم، رہائی سے متعلق اِس تازہ ترین اقدام کے باوجود، برما میں اب بھی درجنوں سیاست داں، قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں، جو عشروں سے جاری رہنے والی فوجی آمریت سے تعلق توڑنے کے لیے کوشاں ہے
واشنگٹن —
برما نے، جسے میانمار کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، 41 سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔ یہ تازہ ترین اقدام صدر تھائن سین کے اُس عہد کی بجا آوری ہے جِس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ سال کے آخر تک تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا۔
حکام کا کہنا ہے کہ بدھ کو رہا ہونے والوں کی اکثریت سرگرم کارکنوں پر مشتمل ہے، جِن پر آئین کی شق نمبر 18 لاگو ہوتی ہے، جس میں پُرامن اجتماع کی اجازت ہے، اور جو لوگ بغیر اجازت کے احتجاج کے حربے اپناتے ہیں، اُنھیں اِس شق کی خلاف ورزی تصور کرتے ہوئے، ایک سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
تاہم، رہائی سے متعلق اِس تازہ ترین اقدام کے باوجود، برما میں اب بھی درجنوں سیاست داں، قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں، جو عشروں سے جاری رہنے والی فوجی آمریت سے تعلق توڑنے کے لیے کوشاں ہے۔
بو کَئی، سرکاری حمایت سے قائم ہونے والی سیاسی قیدیوں کے بارے میں نظرثانی پر مامور کمیٹی کے ایک رکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب بھی ملک میں 44سیاسی قیدی باقی ہیں۔
بو کئی کے بقول، یہ لوگ اپنی سزا کاٹ رہے ہیں، جب کہ متعدد دیگر لوگوں کو مقدمات کا سامنا ہے۔ تقریباً 200 افراد آئین کی شق نمبر 18 کی خلاف ورزی پر مقدمات جھیل رہے ہیں، جس کا تعلق پُرامن احتجاج کے حق سے ہے۔
ابتدائی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ رہا کیے گئے افراد کو حالیہ دِنوں کے دوران ہی حراست میں لیا گیا تھا، اُن پر احتجاج سے متعلق ایک نئے قانون کی خلاف ورزی کا الزام ہے، جس کو حقوقِ انسانی کے گروہوں نے جابرانہ قرار دیا ہے۔
دیگر قیدیوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ اُنھیں برما میں جاری عشروں پرانے نسلی تنازع کے سلسلے میں قید کیا گیا ہے۔
کچھ سرگرم کارکنوں نے قیدیوں کی رہائی کے پیچھے کارفرما سرکاری عزائم پر سوالات اُٹھائے ہیں۔
دی نائن لِن، کو بدھ کے روز رنگون کے ’انسائین قیدخانے‘ سے رہائی دی گئی۔
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی برمی سروس کو بتایا کہ قید سے رہائی کا مقصد محض اصلاحات کا تاثر دینا ہے۔
بدھ کا یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا جب جنوب مشرقی ممالک کے ایشیائی کھیلوں کے سلسلے میں غیر ملکی زعماٴ برما آئے ہوئے ہیں۔
برما کے اصلاح پسندوں کی طرف سے شروع کی گئی عام معافی کے احکامات کے تحت سینکڑوں سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ تاہم، اب بھی حکومت فوجی اکثریت والے کارندوں سے چلائی جا رہی ہے۔ کئی عدد رہائیاں اہم بین الاقوامی لمحات کے دوران عمل میں لائی جارہی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ بدھ کو رہا ہونے والوں کی اکثریت سرگرم کارکنوں پر مشتمل ہے، جِن پر آئین کی شق نمبر 18 لاگو ہوتی ہے، جس میں پُرامن اجتماع کی اجازت ہے، اور جو لوگ بغیر اجازت کے احتجاج کے حربے اپناتے ہیں، اُنھیں اِس شق کی خلاف ورزی تصور کرتے ہوئے، ایک سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
تاہم، رہائی سے متعلق اِس تازہ ترین اقدام کے باوجود، برما میں اب بھی درجنوں سیاست داں، قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں، جو عشروں سے جاری رہنے والی فوجی آمریت سے تعلق توڑنے کے لیے کوشاں ہے۔
بو کَئی، سرکاری حمایت سے قائم ہونے والی سیاسی قیدیوں کے بارے میں نظرثانی پر مامور کمیٹی کے ایک رکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب بھی ملک میں 44سیاسی قیدی باقی ہیں۔
بو کئی کے بقول، یہ لوگ اپنی سزا کاٹ رہے ہیں، جب کہ متعدد دیگر لوگوں کو مقدمات کا سامنا ہے۔ تقریباً 200 افراد آئین کی شق نمبر 18 کی خلاف ورزی پر مقدمات جھیل رہے ہیں، جس کا تعلق پُرامن احتجاج کے حق سے ہے۔
ابتدائی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ رہا کیے گئے افراد کو حالیہ دِنوں کے دوران ہی حراست میں لیا گیا تھا، اُن پر احتجاج سے متعلق ایک نئے قانون کی خلاف ورزی کا الزام ہے، جس کو حقوقِ انسانی کے گروہوں نے جابرانہ قرار دیا ہے۔
دیگر قیدیوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ اُنھیں برما میں جاری عشروں پرانے نسلی تنازع کے سلسلے میں قید کیا گیا ہے۔
کچھ سرگرم کارکنوں نے قیدیوں کی رہائی کے پیچھے کارفرما سرکاری عزائم پر سوالات اُٹھائے ہیں۔
دی نائن لِن، کو بدھ کے روز رنگون کے ’انسائین قیدخانے‘ سے رہائی دی گئی۔
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی برمی سروس کو بتایا کہ قید سے رہائی کا مقصد محض اصلاحات کا تاثر دینا ہے۔
بدھ کا یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا جب جنوب مشرقی ممالک کے ایشیائی کھیلوں کے سلسلے میں غیر ملکی زعماٴ برما آئے ہوئے ہیں۔
برما کے اصلاح پسندوں کی طرف سے شروع کی گئی عام معافی کے احکامات کے تحت سینکڑوں سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ تاہم، اب بھی حکومت فوجی اکثریت والے کارندوں سے چلائی جا رہی ہے۔ کئی عدد رہائیاں اہم بین الاقوامی لمحات کے دوران عمل میں لائی جارہی ہیں۔