روہنگیا نسل سے بدسلوکی کے الزامات کوئی نئے نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ انھیں دنیا میں سب سے زیادہ ایذا رسانی کی شکار اقلیتوں میں سے ایک قرار دے چکی ہے۔
انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے کہا ہے کہ برما میں حکام روہنگیا مسلمانوں کے خلاف امتیازی قوانین نافذ کر کے انسانیت کے خلاف خلاف جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ہزاروں روہنگیا مسلمان اس ملک سے پہلے ہی نقل مکانی کر چکے ہیں۔
منگل کو فورٹی رائٹس نامی گروپ کے مطابق حکومت کی متعدد افشا ہونے والی دستاویزات سے شمالی ریاست راکین میں روہنگیا نسل کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا انکشاف ہوتا ہے جس میں نقل و حرکت کی آزادی پر قدغن، شادی اور بچوں کی پیدائش سے متعلق تعزیرات بھی شامل ہیں۔
روہنگیا نسل سے بدسلوکی کے الزامات کوئی نئے نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ انھیں دنیا میں سب سے زیادہ ایذا رسانی کی شکار اقلیتوں میں سے ایک قرار دے چکی ہے۔ بیشتر کو برما کی شہریت دینے سے بھی انکار کیا جا چکا ہے۔ انھیں بنگلہ دیش سے آئے ہوئے تارکین وطن تصور کیا جاتا ہے۔
تھائی لینڈ میں قائم فورٹی رائٹس کا کہنا ہے کہ اس امتیازی سلوک کو ریاست اور مرکزی حکومت کے عہدیداروں کی پشت پناہی حاصل ہے اور ’’بظاہر یہ اس لیے ترتیب دیا گیا کہ روہنگیا نسل کو اس حد تک زچ کر دیا جائے کہ وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جائے۔‘‘
اپنی رپورٹ میں گروپ کا کہنا تھا کہ اسے ایک ایسا حکم نامہ ملا ہے جس کی بنیاد پر ’’ ماؤنگداو اور بوتھیڈاؤنگ کے علاقوں میں دو بچے پیدا کرنے کی سخت پالیسی‘‘ پر عملدرآمد کیا گیا۔
گوکہ برما میں صرف چار فیصد مسلمان آباد ہیں، اکثریتی بدھ مت کے پیروکاروں کا الزام عائد کرتے ہیں مسلمانوں کے تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح پیدائش ان کے نزدیک ملک میں ان کے قیمتی وسائل اور طرز زندگی کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔
لیکن بدھ مت کے ماننے والوں کے ان دعوؤں کے برعکس مسلمانوں کی اکثریت نقل مکانی پر مجبور ہوئی، خصوصاً 2012ء میں ریاست راکین میں ہونے والے بدھ مسلم فسادات میں 250 افراد کی ہلاکت اور بعد ازاں ملک کے دیگر حصوں تک ان فسادات کے پھیل جانے سے بہت سے لوگ گھر بار چھوڑ گئے۔
گروپ کے مطابق ان سخت قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانے اور طویل قید کی سزائیں سنائی جاتی ہیں۔
برما کی حکومت کی طرف سے اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا اور وہ اس گروپ کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کر چکی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ملک میں بسنے والی کسی بھی اقلیت کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ اس کے آباؤ اجداد راکین میں 1823ء میں برطانوی حملے سے قبل یہاں آباد تھے۔
برما کے لاکھوں روہنگیا مسلمان یہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ کئی نسلوں سے یہاں آباد ہیں لیکن یہ اقلیت اس کا دستاویزی ثبوت فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
ہزاروں روہنگیا مسلمان اس ملک سے پہلے ہی نقل مکانی کر چکے ہیں۔
منگل کو فورٹی رائٹس نامی گروپ کے مطابق حکومت کی متعدد افشا ہونے والی دستاویزات سے شمالی ریاست راکین میں روہنگیا نسل کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا انکشاف ہوتا ہے جس میں نقل و حرکت کی آزادی پر قدغن، شادی اور بچوں کی پیدائش سے متعلق تعزیرات بھی شامل ہیں۔
روہنگیا نسل سے بدسلوکی کے الزامات کوئی نئے نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ انھیں دنیا میں سب سے زیادہ ایذا رسانی کی شکار اقلیتوں میں سے ایک قرار دے چکی ہے۔ بیشتر کو برما کی شہریت دینے سے بھی انکار کیا جا چکا ہے۔ انھیں بنگلہ دیش سے آئے ہوئے تارکین وطن تصور کیا جاتا ہے۔
تھائی لینڈ میں قائم فورٹی رائٹس کا کہنا ہے کہ اس امتیازی سلوک کو ریاست اور مرکزی حکومت کے عہدیداروں کی پشت پناہی حاصل ہے اور ’’بظاہر یہ اس لیے ترتیب دیا گیا کہ روہنگیا نسل کو اس حد تک زچ کر دیا جائے کہ وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جائے۔‘‘
اپنی رپورٹ میں گروپ کا کہنا تھا کہ اسے ایک ایسا حکم نامہ ملا ہے جس کی بنیاد پر ’’ ماؤنگداو اور بوتھیڈاؤنگ کے علاقوں میں دو بچے پیدا کرنے کی سخت پالیسی‘‘ پر عملدرآمد کیا گیا۔
گوکہ برما میں صرف چار فیصد مسلمان آباد ہیں، اکثریتی بدھ مت کے پیروکاروں کا الزام عائد کرتے ہیں مسلمانوں کے تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح پیدائش ان کے نزدیک ملک میں ان کے قیمتی وسائل اور طرز زندگی کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔
لیکن بدھ مت کے ماننے والوں کے ان دعوؤں کے برعکس مسلمانوں کی اکثریت نقل مکانی پر مجبور ہوئی، خصوصاً 2012ء میں ریاست راکین میں ہونے والے بدھ مسلم فسادات میں 250 افراد کی ہلاکت اور بعد ازاں ملک کے دیگر حصوں تک ان فسادات کے پھیل جانے سے بہت سے لوگ گھر بار چھوڑ گئے۔
گروپ کے مطابق ان سخت قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانے اور طویل قید کی سزائیں سنائی جاتی ہیں۔
برما کی حکومت کی طرف سے اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا اور وہ اس گروپ کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کر چکی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ملک میں بسنے والی کسی بھی اقلیت کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ اس کے آباؤ اجداد راکین میں 1823ء میں برطانوی حملے سے قبل یہاں آباد تھے۔
برما کے لاکھوں روہنگیا مسلمان یہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ کئی نسلوں سے یہاں آباد ہیں لیکن یہ اقلیت اس کا دستاویزی ثبوت فراہم کرنے سے قاصر ہے۔