وائس آف امریکہ کی برمی سروس کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں صدر تھین سین نے کہا کہ مختلف کمیونٹیز کے درمیان انسانی حقوق کے احترام اور ہم آہنگی کے فروغ میں مدد کے لیے تعلیم ایک اہم ذریعہ ہے
برما کے صدر تھین سین نے کہاہے کہ ان کی حکومت اقلتی روہنگیا مسلمانوں میں تعلیم کی شرح بہتر بنانے کے لیے وہاں سکول کھولے گی۔
روہنگیا مسلمان ، بودھ اکثریتی ریاست پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ان پر مظالم ڈھا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ کی برمی سروس کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں صدر تھین سین نے کہا کہ مختلف کمیونٹیز کے درمیان انسانی حقوق کے احترام اور ہم آہنگی کے فروغ میں مدد کے لیے تعلیم ایک اہم ذریعہ ہے۔
پیر کے روز برما کے دارلحکومت نے پیٹاؤمیں لیے گئے اس انٹرویو میں برما کے صدر نے روہنگیا مسلمانوں کے بنگالی کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ان کے علاقوں میں صرف دینی مدرسے ہیں اور بقول ان کے وہاں صحیح تعلیم کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت روہنگیا کے لیے اسکول کھولے گی اور انہیں جدید تعلیم فراہم کرنے کے اقدامات کرے گی۔ اور جب وہ تعلیم حاصل کرلیں گے تو وہ اچھے اور برے میں صحیح تمیز کرسکیں گے۔
برما کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو ، جن کی تعداد آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے، اپنا شہری تسلیم کرنے اور شہریت دینےسے انکار کرتی ہے۔ اکثر برمی باشندوں کا خیال ہے کہ روہنگیا بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔
مسٹر تھین سین نے یہ بھی کہا کہ وہ برما کے شہریت سے متعلق برما کے 1982کے قانون کوتبدیل کرنا ضروری سمجھتے ہیں ، جس کے تحت تارکین وطن کی تیسری نسل کو برما کی شہریت حاصل کرنے استحقاق حاصل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت حالیہ فسادات کے متاثرین کی مدد کررہی ہے اور انسانی حقوق سے متعلق برما کے آزاد کمشن سے شورش کی تحقیقات کرنے کے لیے کہاہے۔
مئی میں پھوٹ پڑنے والے فسادات کے نتیجے میں دونوں کمیونیٹز کے 77 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے لیے کسی غیر ملکی کمشن کی ضرورت نہیں ہے۔
روہنگیا مسلمان ، بودھ اکثریتی ریاست پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ان پر مظالم ڈھا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ کی برمی سروس کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں صدر تھین سین نے کہا کہ مختلف کمیونٹیز کے درمیان انسانی حقوق کے احترام اور ہم آہنگی کے فروغ میں مدد کے لیے تعلیم ایک اہم ذریعہ ہے۔
پیر کے روز برما کے دارلحکومت نے پیٹاؤمیں لیے گئے اس انٹرویو میں برما کے صدر نے روہنگیا مسلمانوں کے بنگالی کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ان کے علاقوں میں صرف دینی مدرسے ہیں اور بقول ان کے وہاں صحیح تعلیم کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت روہنگیا کے لیے اسکول کھولے گی اور انہیں جدید تعلیم فراہم کرنے کے اقدامات کرے گی۔ اور جب وہ تعلیم حاصل کرلیں گے تو وہ اچھے اور برے میں صحیح تمیز کرسکیں گے۔
برما کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو ، جن کی تعداد آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے، اپنا شہری تسلیم کرنے اور شہریت دینےسے انکار کرتی ہے۔ اکثر برمی باشندوں کا خیال ہے کہ روہنگیا بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔
مسٹر تھین سین نے یہ بھی کہا کہ وہ برما کے شہریت سے متعلق برما کے 1982کے قانون کوتبدیل کرنا ضروری سمجھتے ہیں ، جس کے تحت تارکین وطن کی تیسری نسل کو برما کی شہریت حاصل کرنے استحقاق حاصل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت حالیہ فسادات کے متاثرین کی مدد کررہی ہے اور انسانی حقوق سے متعلق برما کے آزاد کمشن سے شورش کی تحقیقات کرنے کے لیے کہاہے۔
مئی میں پھوٹ پڑنے والے فسادات کے نتیجے میں دونوں کمیونیٹز کے 77 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے لیے کسی غیر ملکی کمشن کی ضرورت نہیں ہے۔