گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے فسادات سے متاثرہ ریاست راکین کے دورے کے بعد شفاف اور جامع تحقیقات کے لیے برما کے انسانی حقوق کمشن سے ایک کمشن قائم کرنے کی اپیل کی تھی۔
برما کے انسانی حقوق کے کمشن نے کہاہے بودھ اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان جون پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارنہ فسادات کی تحقیقات کرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ تحقیقات سے انکار ایک ایسےوقت میں سامنے آیا ہے جب ایک اسلامی تنظیم نے فسادات میں برما کی حکومت کے کردار کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں اٹھانے کا عندیہ دیا ہے۔
گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے فسادات سے متاثرہ ریاست راکین کے دورے کے بعد شفاف اور جامع تحقیقات کے لیے برما کے انسانی حقوق کمشن سے ایک کمشن قائم کرنے کی اپیل کی تھی۔
کمشن کے چیئرمین ون مرا نے جمعرات کو کہا کہ اس تجویز نے انہیں حیرت میں ڈال دیا ہے اور ان کا کہناتھا کہ اس طرح کی تحقیقات ان کی تنظیم کی ذمہ داری نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا مقرر کردہ ایک اور گروپ صرف ان ہلاکتوں کی تحقیقات کررہاہے جس کے نتیجے میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے ، جیسا کہ میں جانتا ہوں حکومت نے پہلے ہی ان دو واقعات کی تحقیقات کے لیے، جن میں سے ایک جنسی زیادتی اور دوسرا دس افراد کا قتل کا واقعہ ہے، ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ٹیم بنادی ہے۔
ون مرا نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے ٹامس اوجیا کونتاناجانب دار تھے۔تاہم انہوں نے وائس آف امریکہ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں اس کی وضاحت نہیں کی۔
نیشنل ہیومن رائٹس کمشن نے تحقیقات کے لیے جولائی میں ایک تین رکنی وفد بھیجا تھا جس کے بارے میں ون مرا کا کہناہے کہ اس کا مقصد فسادات سے متاثرہ ا فراد کی انسانی بھلائی سے متعلق ضروریات کا جائزہ لینا تھا، اور اس کا ان الزامات سے کوئی تعلق نہیں تھا کہ فوج نے کسی خاص گروپ کے ساتھ کوئی ترجیحی برتاؤ کیاتھا، جسے انہوں نے ایک انتہائی سخت الزام قرار دیا۔
ون مرا نے اس پر بھی زور دیا کہ وہاں صورت حال اب بھی نازک اور ناقابل بھروسہ ہے۔ اور انہوں نے یہ توقع ظاہر کی کہ یہ صورت حال جمہوریت کےراستے پر گامزن برما کے لیے رکاوٹ نہیں بنے گی۔
اسی دوران آرگنائزیشن فار اسلامک کوآپریشن نے اس ہفتے برما کے روہنگیا مسلمانوں کے حالات پر اپنے تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ فسادات کے دوران برما کی حکومت کے برتاؤ کا معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھائیں گے۔
جمعرات کو اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست راکین میں فسادات کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 68500 سے بڑھ گئی ہے اورنئے لوگوں کی آمد کے ساتھ اس میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔جب کہ بعض علاقوں میں ابھی تک تشدد کے اکادکا واقعات کی اطلاعات مل رہی ہیں۔
گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے فسادات سے متاثرہ ریاست راکین کے دورے کے بعد شفاف اور جامع تحقیقات کے لیے برما کے انسانی حقوق کمشن سے ایک کمشن قائم کرنے کی اپیل کی تھی۔
کمشن کے چیئرمین ون مرا نے جمعرات کو کہا کہ اس تجویز نے انہیں حیرت میں ڈال دیا ہے اور ان کا کہناتھا کہ اس طرح کی تحقیقات ان کی تنظیم کی ذمہ داری نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا مقرر کردہ ایک اور گروپ صرف ان ہلاکتوں کی تحقیقات کررہاہے جس کے نتیجے میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے ، جیسا کہ میں جانتا ہوں حکومت نے پہلے ہی ان دو واقعات کی تحقیقات کے لیے، جن میں سے ایک جنسی زیادتی اور دوسرا دس افراد کا قتل کا واقعہ ہے، ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ٹیم بنادی ہے۔
ون مرا نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے ٹامس اوجیا کونتاناجانب دار تھے۔تاہم انہوں نے وائس آف امریکہ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں اس کی وضاحت نہیں کی۔
نیشنل ہیومن رائٹس کمشن نے تحقیقات کے لیے جولائی میں ایک تین رکنی وفد بھیجا تھا جس کے بارے میں ون مرا کا کہناہے کہ اس کا مقصد فسادات سے متاثرہ ا فراد کی انسانی بھلائی سے متعلق ضروریات کا جائزہ لینا تھا، اور اس کا ان الزامات سے کوئی تعلق نہیں تھا کہ فوج نے کسی خاص گروپ کے ساتھ کوئی ترجیحی برتاؤ کیاتھا، جسے انہوں نے ایک انتہائی سخت الزام قرار دیا۔
ون مرا نے اس پر بھی زور دیا کہ وہاں صورت حال اب بھی نازک اور ناقابل بھروسہ ہے۔ اور انہوں نے یہ توقع ظاہر کی کہ یہ صورت حال جمہوریت کےراستے پر گامزن برما کے لیے رکاوٹ نہیں بنے گی۔
اسی دوران آرگنائزیشن فار اسلامک کوآپریشن نے اس ہفتے برما کے روہنگیا مسلمانوں کے حالات پر اپنے تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ فسادات کے دوران برما کی حکومت کے برتاؤ کا معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھائیں گے۔
جمعرات کو اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست راکین میں فسادات کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 68500 سے بڑھ گئی ہے اورنئے لوگوں کی آمد کے ساتھ اس میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔جب کہ بعض علاقوں میں ابھی تک تشدد کے اکادکا واقعات کی اطلاعات مل رہی ہیں۔