رکھائن کے کچھ بودھوں کو ڈر ہے کہ مسلم بچوں کی بلند شرح پیدائش اُنھیں جلدہ ہی اقلیت میں بدل دے گی۔ گذشتہ برس، ریاست رکھائن کے پُرتشدد بلوؤں میں 200افراد ہلاک اور ایک لاکھ چالیس ہزار لوگ بے گھر ہوگئے تھے
واشنگٹن —
انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے لیے دو بچوں کی حد روہنگیا کے خلاف جاری انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔
بنگلہ دیش کی سرحدپر یہ واقعہ برما کی سرحد پر واقع برما کی مغربی ریاست رکھائن کے دو اضلاع میں زیادہ سے زیادہ دو بچے اور ایک بیوی کی پابندی کا نفاذ کیا جارہا ہے۔
ا<س پالیسی کا اطلاق بودھوں پر نہیں ہوگا۔ لیکن، یہ واضح نہیںٕ آیا یہ پالیسی ریاست رکھائن کے دوسرے علاقوں کے مسلمانوں پر بھی نافذ ہوگی۔
مسلمانوں پر بچوں کی پیدائش کی حد کا اطلاق نیا نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ کا کہنا ہے کہ مسلمانوں پر اس پالیسی کا نفاذ 2005ء سے ہوا ہے۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ کے ایشیائی امور کے ڈائریکٹر، فِل رابرٹس کا کہنا ہے کہ برما کو یہ پالیسی اور روہنگیا کے خلاف دوسری پابندیاں منسوخ کر دینی چاہئیں۔
اُن کے بقول، جب لوگ شادی کی اجازت کی درخواست دیتے ہیں تو روہنگیا سے یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ تحریری طور پر یہ وعدہ کریں گے کہ وہ دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کریں گے۔ دو کے بعد پیدا ہونے والے بچوں کو رجسٹر نہیں کیا جائے گا۔
’اِس لیے، وہ کسی اسکول میں داخل نہیں ہوسکیں گے اور اُنھیں حکومت کی طرف سے کسی قسم کی تعلیمی یا دوسری سہولتیں نہیں ملیں گی اور نہ ہی اُنھیں اپنے والدین کے ساتھ کہیں جانے کی اجازت ہوگی۔ وہ بے وطن لوگوں کے غیر رجسٹرڈ بچے بن جائیں گے اور یہ ایک ایسی بدترین صورتِ حال ہے جس کا آپ شاید ہی تصور کرسکیں‘۔
ریاست رکھائن کے حکام کا کہنا ہے کہ محض رکھائن کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ صدارتی کمیشن نے رکھائن کے بودھوں اور مسلمانوں کے درمیان پچھلے سال کی فرقہ وارانہ بدامنی کی چھان بین کی تھی۔
اُس نے دوسری سفارشات کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں بچوں کی پیدائش کی بلند شرح کم کرنے کے لیے خانداندی منصوبہ بندی کی سفارش بھی کی تھی۔
رکھائن کے کچھ بودھوں کو ڈر ہے کہ مسلم بچوں کی بلند شرح پیدائش اُنھیں جلد ہی اقلیت میں بدل دے گی۔
گذشتہ برس، ریاست رکھائن کے پُرتشدد بلوؤں میں 200افراد ہلاک اور ایک لاکھ چالیس ہزار لوگ بے گھر ہوگئے تھے، جِن میں اکثریت روہنگیا مسلمانوں کی تھی۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ نے اِس تشدد کو نسل کشی قرار دیا اور اس میں سکیورٹی فورسز کے ملوث ہونے اور اجتماعی قبروں کے شواہد کا حوالہ پیش کیا۔
حزب اختلاف کی قائد، آنگ سان سوچی نے پیر کے روز روہنگیا کا شاذ و نادر دفاع کرتے ہوئے نامہ نگاروں سے کہا کہ دو بچوں کی پابندی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
لیکن، اُن کی ’نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی‘ اب تک روہنگیا، کو ایک نسلی اکائی یا شہری کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔
اُن کی جماعت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ صرف اُس صورت میں روہنگیا کی شہریت کو قبول کرنے پر تیار ہوں گے اگر قانون کو تبدیل کیا جائے اور اُنھیں بنگالی کہا جائے۔ یہ وہ اصطلاح ہے جس سے مراد بنگلہ دیش سے غیر قانونی ترک وطن ہے۔
یہ سیاسی جماعت اُنھیں روہنگیا نہیں کہتی۔ اس لیے برما کی تاریخ میں اُن کا کوئی وجود نہیں۔
روہنگیا دنیا بھر میں سب سے زیادہ بدسلوکی کا نشانہ بننے والی اقلیت سمجھی جارہی ہے اور اُن میں سے بہت سوں کو برما میں کئی نسلوں سے آباد ہونے کے باوجود وہاں کا شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔
تشدد کے ایک سال گزر جانے کے بعد بھی بہت سے روہنگیا مسلمان ابھی تک امدادی کیمپوں میں رہ رہے ہیں یا اپنی بستیوں تک محدود ہیں۔
برما کے لیے’ ڈاکٹرز وداؤٹ بارڈرز‘ کے مشن کے نائب سربراہ کہتے ہیں کہ بہت سے روہنگیا مسلمان کہیں آنے جانے سے ڈرتے ہیں۔ لیکن، حکام اُنھیں مناسب سکیورٹی فراہم نہیں کر رہے اور اُنھیں ایک اسپتال تک جانے کی اجازت ہے جس کے نتیجے میں اُن کی صحت متاثر ہورہی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ٹی بی کے مریضوں کو اپنا علاج ادھورا چھوڑنا پڑا ہے جس سے نہ صرف اُن کی صحت کے لیے خطرہ لاحق ہوگیا ہے، بلکہ چھوت کی بیماری پھیلنے کے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اُن کی تنظیم ’ڈاکٹرز وداؤٹ بارڈرز‘ امدادی کیمپوں میں صحت کی بہتر سہولتیں فراہم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن، برما کے حکام نے اُنھیں اِس کی اجازت دیتے سے انکار کر دیا ہے۔
بنگلہ دیش کی سرحدپر یہ واقعہ برما کی سرحد پر واقع برما کی مغربی ریاست رکھائن کے دو اضلاع میں زیادہ سے زیادہ دو بچے اور ایک بیوی کی پابندی کا نفاذ کیا جارہا ہے۔
ا<س پالیسی کا اطلاق بودھوں پر نہیں ہوگا۔ لیکن، یہ واضح نہیںٕ آیا یہ پالیسی ریاست رکھائن کے دوسرے علاقوں کے مسلمانوں پر بھی نافذ ہوگی۔
مسلمانوں پر بچوں کی پیدائش کی حد کا اطلاق نیا نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ کا کہنا ہے کہ مسلمانوں پر اس پالیسی کا نفاذ 2005ء سے ہوا ہے۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ کے ایشیائی امور کے ڈائریکٹر، فِل رابرٹس کا کہنا ہے کہ برما کو یہ پالیسی اور روہنگیا کے خلاف دوسری پابندیاں منسوخ کر دینی چاہئیں۔
اُن کے بقول، جب لوگ شادی کی اجازت کی درخواست دیتے ہیں تو روہنگیا سے یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ تحریری طور پر یہ وعدہ کریں گے کہ وہ دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کریں گے۔ دو کے بعد پیدا ہونے والے بچوں کو رجسٹر نہیں کیا جائے گا۔
’اِس لیے، وہ کسی اسکول میں داخل نہیں ہوسکیں گے اور اُنھیں حکومت کی طرف سے کسی قسم کی تعلیمی یا دوسری سہولتیں نہیں ملیں گی اور نہ ہی اُنھیں اپنے والدین کے ساتھ کہیں جانے کی اجازت ہوگی۔ وہ بے وطن لوگوں کے غیر رجسٹرڈ بچے بن جائیں گے اور یہ ایک ایسی بدترین صورتِ حال ہے جس کا آپ شاید ہی تصور کرسکیں‘۔
ریاست رکھائن کے حکام کا کہنا ہے کہ محض رکھائن کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ صدارتی کمیشن نے رکھائن کے بودھوں اور مسلمانوں کے درمیان پچھلے سال کی فرقہ وارانہ بدامنی کی چھان بین کی تھی۔
اُس نے دوسری سفارشات کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں بچوں کی پیدائش کی بلند شرح کم کرنے کے لیے خانداندی منصوبہ بندی کی سفارش بھی کی تھی۔
رکھائن کے کچھ بودھوں کو ڈر ہے کہ مسلم بچوں کی بلند شرح پیدائش اُنھیں جلد ہی اقلیت میں بدل دے گی۔
گذشتہ برس، ریاست رکھائن کے پُرتشدد بلوؤں میں 200افراد ہلاک اور ایک لاکھ چالیس ہزار لوگ بے گھر ہوگئے تھے، جِن میں اکثریت روہنگیا مسلمانوں کی تھی۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ نے اِس تشدد کو نسل کشی قرار دیا اور اس میں سکیورٹی فورسز کے ملوث ہونے اور اجتماعی قبروں کے شواہد کا حوالہ پیش کیا۔
حزب اختلاف کی قائد، آنگ سان سوچی نے پیر کے روز روہنگیا کا شاذ و نادر دفاع کرتے ہوئے نامہ نگاروں سے کہا کہ دو بچوں کی پابندی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
لیکن، اُن کی ’نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی‘ اب تک روہنگیا، کو ایک نسلی اکائی یا شہری کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔
اُن کی جماعت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ صرف اُس صورت میں روہنگیا کی شہریت کو قبول کرنے پر تیار ہوں گے اگر قانون کو تبدیل کیا جائے اور اُنھیں بنگالی کہا جائے۔ یہ وہ اصطلاح ہے جس سے مراد بنگلہ دیش سے غیر قانونی ترک وطن ہے۔
یہ سیاسی جماعت اُنھیں روہنگیا نہیں کہتی۔ اس لیے برما کی تاریخ میں اُن کا کوئی وجود نہیں۔
روہنگیا دنیا بھر میں سب سے زیادہ بدسلوکی کا نشانہ بننے والی اقلیت سمجھی جارہی ہے اور اُن میں سے بہت سوں کو برما میں کئی نسلوں سے آباد ہونے کے باوجود وہاں کا شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔
تشدد کے ایک سال گزر جانے کے بعد بھی بہت سے روہنگیا مسلمان ابھی تک امدادی کیمپوں میں رہ رہے ہیں یا اپنی بستیوں تک محدود ہیں۔
برما کے لیے’ ڈاکٹرز وداؤٹ بارڈرز‘ کے مشن کے نائب سربراہ کہتے ہیں کہ بہت سے روہنگیا مسلمان کہیں آنے جانے سے ڈرتے ہیں۔ لیکن، حکام اُنھیں مناسب سکیورٹی فراہم نہیں کر رہے اور اُنھیں ایک اسپتال تک جانے کی اجازت ہے جس کے نتیجے میں اُن کی صحت متاثر ہورہی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ٹی بی کے مریضوں کو اپنا علاج ادھورا چھوڑنا پڑا ہے جس سے نہ صرف اُن کی صحت کے لیے خطرہ لاحق ہوگیا ہے، بلکہ چھوت کی بیماری پھیلنے کے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اُن کی تنظیم ’ڈاکٹرز وداؤٹ بارڈرز‘ امدادی کیمپوں میں صحت کی بہتر سہولتیں فراہم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن، برما کے حکام نے اُنھیں اِس کی اجازت دیتے سے انکار کر دیا ہے۔