سرکاری گنتی کے مطابق روہنگیا مسلمانوں اور بودھ افراد کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد میں درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا رپورٹس کے مطابق مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے
برما کے صدر تھین سین نے کہاہے کہ مغربی راکین ریاست میں روہنگیا مسلمانوں اور بودھ پیروکاروں کے درمیان ہونے والے مہلک فرقہ وارانہ فسادات کا نسل یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
برما کے صدر نے یہ بیان جمعرات کو ترکی کے وزیر خارجہ احمد داودوگلو سے ملاقات کے وقت دیا جو اپنے ملک کی جانب سے فسادات میں بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کی مدد کی پیش کش کرنے آئے ہوئے ہیں۔
صدر تھین سین کا کہناہے کہ ایک لڑکی کے بے رحمانہ قتل اور اس جرم میں ملوث افراد سے انتقام کے جذبے نے بے چینی کو بھڑکایا۔
سرکاری گنتی کے مطابق روہنگیا مسلمانوں اور راکین کے بودھ افراد کے درمیان مئی کے آخر سے شروع ہونے فرقہ وارانہ تشدد کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرنے والے افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
سرکاری کنٹرول کے اخبار نیولائٹ میانمر نے اپنی جمعے کی اشاعت میں صدر تھین سین کے حوالے سے کہاہے کہ انہیں میڈیا کی موشگافیوں پر بڑی مایوسی ہوئی ہے ۔
صدر نے زور دے کر کہاکہ ان فسادات میں 77 افراد مارے گئے تھے جن میں 31 راکین بودھ اور 46 روہنگیا مسلمان تھے۔
برما کے صدر نے یہ بیان جمعرات کو ترکی کے وزیر خارجہ احمد داودوگلو سے ملاقات کے وقت دیا جو اپنے ملک کی جانب سے فسادات میں بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کی مدد کی پیش کش کرنے آئے ہوئے ہیں۔
صدر تھین سین کا کہناہے کہ ایک لڑکی کے بے رحمانہ قتل اور اس جرم میں ملوث افراد سے انتقام کے جذبے نے بے چینی کو بھڑکایا۔
سرکاری گنتی کے مطابق روہنگیا مسلمانوں اور راکین کے بودھ افراد کے درمیان مئی کے آخر سے شروع ہونے فرقہ وارانہ تشدد کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرنے والے افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
سرکاری کنٹرول کے اخبار نیولائٹ میانمر نے اپنی جمعے کی اشاعت میں صدر تھین سین کے حوالے سے کہاہے کہ انہیں میڈیا کی موشگافیوں پر بڑی مایوسی ہوئی ہے ۔
صدر نے زور دے کر کہاکہ ان فسادات میں 77 افراد مارے گئے تھے جن میں 31 راکین بودھ اور 46 روہنگیا مسلمان تھے۔