رواں سال جون سے یہ خطہ شدید بدامنی کی لپیٹ میں ہے اور بدھ مت اور روہنگیا نسل کے مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر ہونے والے فسادات میں درجنوں افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہوگئے۔
برما کی مغربی ریاست راکین میں رواں ہفتے شروع ہونے والے نسلی فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ گھروں کو نذر آتش کیا جا چکا ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق بدھ مت کے ماننے والوں اور مسلمانوں کے درمیان منبیار اور مرایک۔یو میں منگل کے روز بھی فسادات جاری رہے جس میں دو افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہوگئے۔
راکین ریاست کے چیف جسٹس نے وائس آف امریکہ کو منگل کو بتایا کہ واقعات میں تین افراد مارے گئے ہیں۔
رواں سال جون سے یہ خطہ شدید بدامنی کی لپیٹ میں ہے اور بدھ مت اور روہنگیا نسل کے مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر ہونے والے فسادات میں درجنوں افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔
یہ فسادات مبینہ طور پر تین مسلمان مردوں کی بدھ مت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سے جنسی زیادتی اور بعد میں اسے قتل کرنے کا شاخسانہ ہیں۔ اس بدامنی کے باعث پہلے ہی برما کی شہریت اور متعدد بنیادی حقوق سے محروم روہنگیا نسل کے لوگوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔
نسلی فسادات سے برما کی نئی سول حکومت کی حال ہی میں متعارف کرائی گئی اصلاحات کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ ان فسادات کے بعد راکین میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی۔
انسانی حقوق کی بعض تنظیموں کا کہنا ہے کہ اقلیتوں سے زیادتی کی تاریخ رکھنے والی برمی فوج نے بدامنی کے دنوں میں غیر شفاف انداز میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ برما کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق بدھ مت کے ماننے والوں اور مسلمانوں کے درمیان منبیار اور مرایک۔یو میں منگل کے روز بھی فسادات جاری رہے جس میں دو افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہوگئے۔
راکین ریاست کے چیف جسٹس نے وائس آف امریکہ کو منگل کو بتایا کہ واقعات میں تین افراد مارے گئے ہیں۔
رواں سال جون سے یہ خطہ شدید بدامنی کی لپیٹ میں ہے اور بدھ مت اور روہنگیا نسل کے مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر ہونے والے فسادات میں درجنوں افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔
یہ فسادات مبینہ طور پر تین مسلمان مردوں کی بدھ مت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سے جنسی زیادتی اور بعد میں اسے قتل کرنے کا شاخسانہ ہیں۔ اس بدامنی کے باعث پہلے ہی برما کی شہریت اور متعدد بنیادی حقوق سے محروم روہنگیا نسل کے لوگوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔
نسلی فسادات سے برما کی نئی سول حکومت کی حال ہی میں متعارف کرائی گئی اصلاحات کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ ان فسادات کے بعد راکین میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی۔
انسانی حقوق کی بعض تنظیموں کا کہنا ہے کہ اقلیتوں سے زیادتی کی تاریخ رکھنے والی برمی فوج نے بدامنی کے دنوں میں غیر شفاف انداز میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ برما کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔