برما کی اپوزیشن راہنما آنگ سان سو کی نے ہفتے کے روزبرما کے شمال اور مغرب میں ہونے والے فسادات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ جنگ بندی کے باوجود کچھ نسلی گروپوں کے ساتھ دشمنیاں جاری ہیں۔
اُنھوں نے توجہ دلائی کہ برما کےمغرب میں نسلی تشدد کے نتیجے میں آتش زدگی اور قتل و غارت جاری ہے، جہاں سے ریاستی میڈیا نے خبر دی ہے کہ گذشتہ کچھ ہفتوں سےنسلی رکھائین بودھ اور نسلی روہنگا مسلمانوں کے درمیان فسادات میں 50کے قریب افراد ہلاک ہوئے ۔
حکام کا کہنا ہے کہ رکھائین کی ریاست میں لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں جب کہ 2500سے زائد گھر نذرِ آتش کیے جاچکے ہیں۔
جمعے کے روز پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے نے ہمسایہ بنگلہ دیش پر زور دیا کہ تشدد کے باعث پناہ لینے پر مجبور لوگوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دے۔
ایک بیان میں، ادارے نے کہا ہے کہ بچ نکلنے والوں کو تحفظ اور سلامتی میسر نہیں آ رہی ہے جس کی اُنھیں اشد ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے نے یہ بھی کہا کہ اُس کے پاس برما سے متاثرہ لوگوں کی قابل بھروسہ روداد ملی ہےجس سے پتا چلتا ہے کہ پناہ گزینوں سے بھری کشتیوں کو بنگلہ دیش میں لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اِن کشتیوں میں خواتین، بچے اور زخمی افراد سوار تھے۔
اسی ہفتے، مسلم اکثریتی بنگلہ دیش کے حکام نے کہا کہ اُن کے سرحدی محافظوں نے لڑائی سے بچ نکلنے والے روہنگا مسلمانوں کو واپس بھیج دیا ہے۔ بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اُنھیں اجازت دینا ملک کے مفاد میں نہیں ۔
یہ فسادات تین جون کو اُس وقت ہوئے جب بودھوں نے رکھائین میں گھات لگا کر 10 روہنگا مسلمان مسافروں کو ہلاک کردیا، جو بظاہر بدلہ لینے کی چال تھی جس سے قبل مبینہ طور پر تین مسلمانوں نے ایک بودھ خاتون کی آبرو ریزی کے بعد اُسے قتل کردیا تھا۔