میانمار میں 'روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مظالم کی تحقیقات شروع'

فائل

میانمار کی فوج کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے رخائین کی ریاست میں برمی فوج کے اہلکاروں کے طرز عمل سے متعلق تحقیقات شروع کی ہیں، جہاں فوجی اہلکاروں پر روہنگیا مسلمانوں پر وسیع پیمانے پر تشدد روا رکھنے کا ا لزام عائد کیا جاتا ہے۔

ان واقعات کی وجہ سے رواں سال اگست کے بعد سے ہزاروں افراد ہمسایہ ملک بنگلادیش فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ فوج کب اس تحقیقات کے نتائج کو منظر عام پر لائے گی۔

میانمار کے فوجی عہدیداروں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "ہم سرکاری طور پر یہ رپورٹ اس وقت جاری کریں گے جب ہمارے پاس (اس بارے میں) مکمل معلومات ہوں گی۔"

انسانی بحران کے گمبھیر ہونے پر اقوام متحدہ کے ایک سابق سیکرٹری جنرل نے یہ اپیل کی ہے کہ نقل مکانی کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کو رخائین کی ریاست میں واپس آنے کی اجازت دی جائے۔

کوفی عنان جنہوں نے حال ہی میں میانمار میں رخائین ریاست کے بحران کا جائزہ لینے کے لیے قائم کردہ کمیشن کی قیادت کی تھی، نے سیکورٹی کونسل کے ایک پرائیویٹ اجلاس کو بتایا کہ روہنگیا افراد کو "اپنے گھروں کو واپس آنے کے لیے امداد کی ضرورت ہے،" اور انہیں کیمپوں میں بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔

رخائین کی ریاست میں 25 اگست کو میانمار کی فوج اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان اس وقت تشدد پھوٹ پڑا جب روہنگیا عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نے پولیس اور فوج کی درجنوں چوکیوں پر حملہ کر دیا۔ عسکریت پسند اسے اپنی اقلیتی برادری کو ظلم و ستم سے بچانے کی کوشش قرار دیتے رہے۔

اس کے بعد ہونے والی جھڑپوں میں تقریباً چار سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپوں کی طرف سے جاری کی جانے والی سیٹلائیٹ تصاویر میں نظر آتا ہے کہ روہنگیا برادری کے دیہات کو نذر آتش کیا گیا۔

میانمار سے فرار ہو کر بنگلادیش پہنچنے والے روہنگیا برادری کے افراد تارکین وطن کے لیے قائم کیے گئے کیمپوں میں مقیم ہیں۔

کوفی عنان نے کہا کہ میانمار کی حکومت "ایسا ماحول بنائے کہ یہ مہاجرین وقار اور تحفظ کے ساتھ (اپنے گھروں کو ) واپس آ سکیں۔"

جن حالات میں روہنگیا برادری کے افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی اسے اقوام متحدہ اور کئی ملکوں نے "نسلی صفائی" سے تعبیر کیا ہے۔

میانمار کی حکومت ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے صورت حال کا ذمہ دار "دہشت گردی" کو قرار دیتی ہے۔