برما کے فوجی حکمران بھارت کے دورے پر

برما کےاعلیٰ فوجی حکمران جنرل تھان شوائے اپنے پانچ روزہ دورے پر بھارت پہنچ گئے ہیں۔ دورے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔

دورے کے آغاز پر جنرل تھان شوائے اپنے وفد کے ہمراہ بھارتی ریاست بہار میں گایا نامی قصبے میں گئے جہاں انہوں نے ایک مندر کا دورہ کیا جہاں ہندو اور بدھ مت کے ماننے والوں کی ایک بڑی تعداد زیارت کے لئے آتی ہے۔

توقع ہے کہ جنرل تھان شوائے منگل کے روز بھارت کی صدر براتیبھا پٹیل اور وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کریں گے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ کئی تجارتی اور دفاعی معاہدے بھی کریں گے۔

انسانی حقوق کی علمبردار کئی تنظیموں نے اس دورے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے بھارت کی طرف سے برما میں ڈکٹیٹرشپ کی توثیق اور جمہوری اقدارکے مترادف قرار دیا ہے۔

امریکہ نے کہا ہےکہ اُسے امید ہے کہ بھارت برما کے فوجی لیڈر کی جانب سے نئی دہلی کے دورے کے وقت انسانی حقوق کے بارے میں اُنھیں ایک واضح پیغام دے گا۔

برما کے فوجی حکمران جنرل تھان شو اتوار سے بھارت کا سرکاری دورہ شروع کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں جب کہ بھارتی حکومت ان کے استقبال کی تیاریاں کررہی ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور جلاوطن برمی ان کے خلاف مظاہروں کا منصوبہ بنارہے ہیں۔

برما کے فوجی حکمرانوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اپنے سیاسی مخالفین کو جیلو ں میں ڈالنے کی بنا پر بڑے پیمانے پر عالمی تنقید کی سامنا ہے۔برما کی معروف سیاسی راہنما اور نوبیل انعام یافتہ شخصیت آن ساں سوچی گذشتہ 20 برسوں کے دوران 14 برس تک قید میں رہی ہیں۔

سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی 20 سال قبل ہونے والے انتخابات میں بڑے پیمانے پر نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی مگر فوجی حکومت نے انہیں اقتدار دینے سے انکار کردیا تھا۔

برمی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس سال کے دوران انتخابات کرانے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن آن ساں سوچی کی جماعت کو اس میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔
دریں اثنا امریکی محکمہٴ خارجہ کے ترجمان پی جے کراؤلی نے کہا کہ بھارت کو برما کے علم میں یہ بات لانی چاہیئے کہ اُسے اپنا طرزِ عمل درست کرنے کی ضرورت ہے۔
ترجمان نے کہا کہ برما کی حکمراں فوجی حکومت کو یہ بتائے جانے کی ضرورت ہے کہ اُسے اپنی حزبِ اختلاف اور نسلی گروپوں کے ساتھ تعمیری انداز سے رابطہ کرنا چاہیئے۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ برما پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خطے کو ہتھیاروں کی دوڑ کے خطرے سے بچائے۔