عراق جنگ شروع کرنے پر افسوس نہیں: سابق صدر بش

)

اپنی کتاب کے سلسلے میں این بی سی ٹیلی ویژن کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں سابق صدر نے کہا کہ عراق پر حملہ ایک درست فیصلہ تھا اور اس پر انہیں معذرت کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدام کے بغیر عراقی شہری زیادہ بہتر حالت میں ہیں ۔ صدر بش نے صدام حسین کو ایک ظالم ڈکٹیٹر قرار دیا۔

سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کہا ہے انہیں عراق سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہ ملنے کا مسلسل دکھ ہے۔ 2003ء میں ان کی جانب سے امریکی قیادت میں عراق پر حملے کی اجازت دینے کا یہی سب سے بڑا جوازتھا، جس کے نتیجے میں ڈکٹیٹر صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

مسٹر بش نے عراق جنگ اور اپنے دور صدارت کے دیگر متنازع لمحات کا ذکر اپنی کتاب ’’ ڈیسین پوائنٹ ‘‘ میں کیا ہے جو منگل سے امریکہ بھر کے بک اسٹوروں پر فروخت کی جارہی ہے۔

اپنی کتاب کے سلسلے میں این بی سی ٹیلی ویژن کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں سابق صدر نے کہا کہ عراق پر حملہ ایک درست فیصلہ تھا اور اس پر انہیں معذرت کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدام کے بغیر عراقی شہری زیادہ بہتر حالت میں ہیں ۔ صدر بش نے صدام حسین کو ایک ظالم ڈکٹیٹر قرار دیا۔

64 سالہ سابق صدر نے ہری کین کیٹرینا سے نمٹنے کی کوششوں میں اپنی حکومت کی کئی غلطیوں کا اعتراف کیا۔ 2005ء میں آنے والے اس سمندری طوفان نے نیوآرلینز اور لوزی آنا کے علاقوں میں تباہی مچا دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ وہ طوفان کیٹرینا کے متاثرین کے لیے اپنے تحفظات کا اظہار کرنے میں ناکام رہے ، جن میں زیادہ تر سیاہ فام تھے اور جس کی وجہ سے انہیں کئی الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مسٹر بش نے ان تجربات کو اپنے دور صدارت کے بدترین لمحات قرار دیا۔

سابق صدر نے اپنی یادشتوں میں سابق نائب صدر ڈک چینی کے ساتھ اس اختلاف کا بھی ذکر کیا ہے جو ڈک چینی کی جانب سے ان کے ایک سابق مشیر سکوٹر لبی کو مسٹر بش کی جانب سے معافی دینے سے انکار کے باعث پیدا ہواتھا۔

مسٹر بش کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پہلی صدارتی مدت مکمل ہونے کے بعد اس تاثر کی نفی کے لیے ڈک چینی کو تبدیل کرنے کے بارے میں سوچا تھا کہ وہ وہائٹ ہاؤس میں وہ بہت زیادہ اختیارات حاصل کرچکے ہیں۔

سابق صدر نے یہ بھی لکھا ہے کہ انہوں نےالقاعدہ کے مبینہ سرغنہ خالد شیخ محمد سے تفتیش کے دوران واٹر بورڈنگ اور اسی طرح کے دوسرے حربوں کے استعمال کی ذاتی طورپر اجازت دی تھی۔