انڈیانا کے گورنر مائیک پینس کا وسط مغربی ریاست سے تعلق ہے اور وہ سخت قدامت پسند خیالات کے مالک ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ نیو یارک کے منہ پھٹ ڈونالڈ ٹرمپ نے ساتھی کے طور پر اُن کی نامزدگی غیرمعمولی ہے۔ لیکن، مزاج کا یہ فرق کبھی کھبار اعزازی نوعیت کا بن جاتا ہے۔
ایک ایسے شخص کو چُن کر جو کم گو لیکن واشنگٹن کا وسیع تجربہ رکھتا ہے، ہو سکتا ہے کہ ری پبلیکن صدارتی امیدوار کی یہ کوشش ہو کہ ٹکٹ کا توازن یوں ہی برقرار رہ سکتا ہے، جس سے وہ نومبر کے انتخاب کے دوران ری پبلیکن پارٹی سے فاصلہ رکھنے والے دھڑے کو اپنی جانب راغب کرنا سکیں۔
گیری نوردلنگر ’جارج یونیورسٹی واشنگٹن‘ کے گریجوئیٹ اسکول آف پالٹیکل منیجمنٹ میں پروفیسر ہیں۔ بقول اُن کے، ’’پارٹی کا کنزرویٹو دھڑا، جو ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں شاکی ہے، سمجھتا ہے کہ پینس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے‘‘۔
واشنگٹن کا برسہا برس کا تجربہ اور مسیحی کنزرویٹو اقدار میں گندھا ٹھوس عالمی نقطہ نظر۔۔۔ پینس نائب صدارتی امیدوار کا روایتی کردار نبھا رہے ہیں، یہ بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ قیادت صدارتی امیدوار ہی کرے۔
نوردلنگر کے بقول، ’’یہ وہ شخص ہیں جو تنازعات کا سبب نہیں بنتے، وہ صدارتی امیدوار پر حاوی نہیں ہوں گے’’۔
ٹرمپ نے انتخابی مہم کی پہلی منزل کے دوران اپنے آپ کو اِسی طرح سے پیش کیا، یہ کہتے ہوئے کہ ’’جو لوگ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں اُنھیں پتا ہے کہ میں سادہ سا آدمی ہوں، میں مسیحی ہوں، میں کنزرویٹو ہوں اور اِسی ترتیب کے ساتھ ری پبلیکن ہوں‘‘۔