تیونس میں تبدیلی آچکی، مصر میں عوامی بیداری اپنے عروج پر ہے جبکہ عرب دنیا کے دیگر کئی ممالک میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ تجزیہ کار اور مبصرین اس پیش گوئی پر متفق ہیں کہ تیونس سے شروع ہونے والی عوامی احتجاجی تحریک نہ صرف پورے مشرقِ وسطیٰ بلکہ دیگر خطوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
مصر میں احتجاجی مظاہروں کے آغاز کے ساتھ ہی ایک جانب جہاں پاکستانی اخبار نویس اور حزبِ مخالف کے سیاستدان حکمرانوں کو روش درست نہ کرنے کی صورت میں عرب ممالک جیسی عوامی مزاحمتی تحریک سے خبردار کرنے پر تلے ہوئے ہیں، وہیں عوامی حلقے بھی اس سوال پر شدو مد سے بحث میں مصروف ہیں کہ کیا ایسا پاکستان میں بھی ہوسکتا ہے۔
تیونس اور مصر کے عوام کی طرح پاکستانی بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی، کرپشن، معاشی بحران، بے روزگاری اور قومی امور میں غیر ملکی مداخلت جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔ اس صورتِ حال میں یہ سوال واقعی اہم ہوجاتا ہے کہ کیا عوامی مزاحمت کی جاری لہر مشرقِ وسطیٰ تک ہی تھم جائے گی یا اس کی زد میں پاکستان بھی آئے گا؟
تاہم پاکستانی محقق، تاریخ نویس اور دانشور عقیل عباس جعفری کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایسی کسی تحریک کےمستقبل قریب میں امکانات نظر نہیں آتے۔ ان کے بقول پاکستان میں جمہوریت کی موجودگی یہاں تیونس و مصر جیسی تحریک کے پنپنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
جعفری کے بقول پاکستانی عوام بھی بڑی حد تک انہی مسائل سے دوچار ہیں جن کا سامنا تیونس اور مصر کے عوام کو کرنا پڑ رہا ہے تاہم پاکستانی عرب ممالک کی طرح سیاسی جبر کا شکار نہیں اور انہیں بڑی حد تک اپنی بات کہنے کی آزادی حاصل ہے۔
گزشتہ روز وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی کہا تھا کہ پاکستان میں تیونس اور مصر جیسے حالات موجود نہیں لہذا یہاں کے حالات کا موازنہ ان ممالک سے نہیں کیا جاسکتا۔ گیلانی کے بقول ملک میں ادارے کام کررہے ہیں اور جمہوریت بحال ہے۔
تاہم عقیل عباس جعفری کے بقول ملک میں مسائل بے تحاشا ہیں اور عوام میں تبدیلی کی خواہش بھی زور پکڑ رہی ہے تاہم اس تبدیلی کا طریقہ کار تاحال کسی کے پاس موجود نہیں۔ ان کے بقول اگر کوئی ایسا ایشو کھڑا ہوجائے جیسا کہ 2007 میں چیف جسٹس افتخار محمد چودہری کی برطرفی کی صورت میں ہوا تھا تو قوم اب بھی سڑکوں پر نکل سکتی ہے۔
تاہم لاہور کی یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز (لمز) کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسرڈاکٹر محمد وسیم پاکستان میں ایسی کسی عوامی شورش کے امکانات کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ان کے بقول مہنگائی اور دہشت گردی جیسے مسائل کے باوجود پاکستان کے حالات مصر اور تیونس سے اس لیے مختلف ہیں کہ یہاں ریاستی جبر کا عنصر موجود نہیں ہے۔
ڈاکٹر وسیم کہتے ہیں کہ مصر اور تیونس کے برعکس پاکستان میں سیاسی قیدی موجود نہیں اور میڈیا کےذریعے عوام کو اپنے موقف کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ ان کے بقول حکمران طبقہ میڈیا کےذریعے عوام کو جوابدہ ہے جبکہ عرب دنیا میں حکمرانوں کے اپنی عوام کو سامنے جواب دہی کا کوئی تصور موجود نہیں۔
تاہم ان کے بقول ملک میں "گورننس" کا بہت بڑا بحران موجود ہے جس کے نتیجے میں ملک معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے اور حکومت کی کارکردگی کے باعث اسے بڑے پیمانے پر عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کئی عوامی اور دانشور حلقے یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ بے حسی کی اس انتہا کا شکار ہے جہاں عوامی تحریک یا کسی انقلاب کی امید لگانا بھی عبث ہے۔ ناقدین کے بقول معاشرے کے ہر طبقے نے "اسٹیٹس کو" قبول کرلیا ہے اور اسی میں رہتے ہوئے اپنی حالت بہتر بنانے کی جدوجہد میں لگا ہوا ہے جس کے باعث کسی جوہری تبدیلی کیلیے بڑی عوامی تحریک کا امکان نظر نہیں آتا۔
تاہم عقیل عباس جعفری اس تجزیے سے متفق نہیں۔ وہ یہ بات تو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ کسی بڑی عوامی تحریک کیلیے فی الحال تیار نہیں لیکن وہ اس کے امکانات کو رد نہیں کرتے۔
ان کا کہنا ہے کہ مصر اور تیونس میں جو کچھ اب ہورہا ہے پاکستانی اس کا تجربہ 40 برس قبل کرچکے ہیں۔ ان کے بقول ایوب خان کے خلاف عوامی احتجاج ایک بہت بڑی تحریک کا حصہ تھا جس میں معاشرہ کا ہر طبقہ شریک ہوا لیکن اس کا نتیجہ ایک اور آمریت کی صورت میں سامنے آیا۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی نظامِ مصطفی کی تحریک کا فائدہ بھی فوجی آمروں نے اٹھایا۔
جعفری کہتے ہیں کہ اس طرح کہ پہ در پہ کئی تجربات کے بعد پاکستانی قوم یہ سبق سیکھ چکی ہے کہ اس کی تحریکوں کا کوئی ثمر اسے نہیں مل پاتا اور ان کا فائدہ کوئی اور اٹھا لے جاتا ہے۔ ان کے بقول اس تجربے نے معاشرہ میں مایوسی اور سیاست بیزاری کے رجحان کو پروان چڑھایا ہے۔
ان کے بقول پاکستانی معاشرے کو "کایاپلٹ" کی ضرورت ہے جس کیلیے ضروری ہے کہ لوگ من حیث القوم ہو کر اس کیلیے جدوجہد کریں۔لیکن ان کے نزدیک پاکستانی معاشرہ لسانی، مذہبی اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم کا شکار ہے جس کے باعث یہاں کوئی بڑی عوامی تحریک قدم نہیں جماپاتی۔
تاہم عقیل عباس جعفری کا موقف ہے کہ ان تمام عوامل کے باوجود پاکستانی معاشرہ اب بھی کسی "نوبیل کاز" کیلیے اٹھ کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا تجربہ تین سال قبل عدلیہ بحالی مہم کے دوران ہوچکا ہے۔ ان کے بقول دو سال تک چلنے والی اس پرامن احتجاجی تحریک کے دوران عوام کا ہر طبقہ سڑکوں پر نکلا اور اس مقصد کیلیے اپنا کردار ادا کیا۔ ان کے بقول اگر اب بھی ایسا ہی کوئی بڑا ایشو کھڑا ہوا تو قوم دوبارہ سڑکوں پر آسکتی ہے ۔