امریکہ میں بعض حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا دورِ صدارت ختم ہونے سے قبل کیپٹل ہل میں ہنگامہ آرائی کرانے کے الزامات کے تحت ممکنہ کارروائی اور سزا سے بچنے کے لیے صدارتی اختیار استعمال کرتے ہوئے خود کو بھی معاف کر سکتے ہیں یا نہیں؟
واشنگٹن میں فسادات کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے دورِ اقتدار میں دوسری بار تاریخی مواخذے کا بھی سامنا ہے جس کا آغاز رواں ہفتے ہو چکا ہے۔ جب کہ ان کی حریف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ تشدد کے لیے اکسانے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کی وفاقی سطح تحقیقات کی جائیں۔
اس صورتِ حال میں یہ سوال سامنے آ رہا ہے کہ کیا ٹرمپ صدارتی معافی کے اختیار کو اپنے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ تاکہ مزید قانونی چارہ جوئی سے خود کو نکال سکیں۔
یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کو ٹرمپ ماضی میں بھی اٹھا چکے ہیں۔ 2016 میں صدر کی انتخابی مہم کے روس سے روابط پر 2018 میں ہونے والی خصوصی تحقیقات پر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ خود کو معاف کر سکیں۔
لیکن یہ باز گشت بھی موجود ہے کہ اپنی معافی ممکنہ طور پر صدر ٹرمپ کے مفاد میں نہیں ہو سکتی۔ جب کہ مبینہ طور پر ان کے مشیر بھی انہیں اس اقدام سے دور رہنے کا مشورہ دے چکے ہیں۔
صدر کو مشورہ دینے والوں کا کہنا ہے کہ اپنی معافی کا اعلان ایک طرح سے خود کو قصور وار ٹھیرانے کے مترادف ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب قانونی ماہر کہتے ہیں ان کا یہ اقدام محکمہ انصاف مکمل طور پر الٹ بھی سکتا ہے۔ اور آئندہ صدر جو بائیڈن صدارتی معافی کو چیلنج کر سکتے ہیں جس کے بعد دوبارہ سے ڈونلڈ ٹرمپ پر الزامات عائد ہو سکتے ہیں۔
یہ ان اقدامات کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے کہ کیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مدتِ صدارت ختم ہونے سے قبل اپنی معافی کا اقدام کر سکتے ہیں۔
کیا صدر خود کو معاف کر سکتے ہیں؟
امریکہ کا آئین اس معاملے میں وضاحت نہیں کرتا اور خاموش ہے۔ آئین کی دوسری شق کے تحت صدر کو اختیار حاصل ہے کہ امریکہ کے خلاف ہونے والے کسی جرم میں عارضی استثنیٰ یا مکمل معافی دے سکیں۔ البتہ مواخذے کے معاملے میں یہ اختیار حاصل نہیں ہے۔ ایسے میں آئین کے تحت دیے گئے اس اختیار کی مزید تشریح کی ضرورت موجود ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر اور کتاب 'پریزیڈینشل پارڈن پاور' (صدارتی معافی کا اختیار) کے مصنف جیفری کروچ کہتے ہیں کہ کسی بھی صدر نے کبھی اپنی معافی کی کوشش نہیں کی۔ اس لیے اس حوالے سے ہمارے پاس کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر نکسن نے اس حوالے سے سوچا تھا لیکن بالآخر انہوں نے ایسا نہ کرنے کا انتخاب کیا۔
وہ لوگ جن کے خیال میں صدر خود کو معاف کر سکتے ہیں وہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ ایسا کرنا آئین کے برعکس نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صدارتی معافی کے یہ اختیار حاصل ہے کہ وفاقی نوعیت کے جرائم کو معاف کیا جا سکتا ہے۔ تو اگر صدر نے خود کوئی وفاقی نوعیت کا جرم کیا ہو تو صدر کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ اپنے آپ کو معاف کر سکیں۔
لیکن وہ لوگ جن کو اس رائے سے اتفاق نہیں ہے اور جو اکثریت میں بھی ہیں، وہ یہ بحث کرتے ہیں کہ ایسا اقدام جس میں معافی دینے کا عمل کیا جا رہا ہو، یہ ایک دوطرفہ اقدام ہے جس میں دو افراد کا شامل ہونا ضروری ہے۔
صدارتی معافی کی قانونی حیثیت
یونیورسٹی آف میمفس میں قانون کے پروفیسر اسٹیو ملروئے کہتے ہیں کہ معافی دینے کی اصطلاح کا مفہوم دراصل ایک شخص کی دوسرے کو معاف کرنے کے طور پر لیا جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ امریکہ کے قانونی نظام میں خود کو معاف کرنے کی مثال نہیں ملتی۔
ان کے بقول انگلش قانون کے تحت کوئی خود اپنے ہی مقدمے میں جج نہیں ہو سکتا۔
وہ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے معافی کا اختیار ایک وسیع معانی رکھتا ہے اور سپریم کورٹ نے کبھی بھی اس کو مسترد نہیں کیا۔ البتہ بیشتر آئینی ماہرین یہی کہیں گے کہ اس اختیار کے تحت کوئی خود کو معاف کرنے کا اعلان نہیں کر سکتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
محکمہ انصاف کے سامنے اسی طرح کا سوال 1974 میں بھی سامنے آیا تھا۔ اس وقت اس کا جواب نفی میں تھا۔ اس وقت محکمۂ انصاف کے قانونی مشیر کے دفتر نے ایک میمو لکھا تھا کہ خود کو معاف کرنے کا اختیار اس کے بنیادی اصول کے برعکس ہے جس کے تحت کوئی شخص اپنے ہی مقدمے میں منصف نہیں ہو سکتا۔
یہ میمو اب بھی محکمہ انصاف کی پالیسی کا حصہ ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صدر اپنے آپ کو معاف کرنے کے لیے اس اختیار کا استعمال کرنے کی کوشش نہیں کر سکتے۔ اگر وہ اپنے آپ کو معافی کے انتخاب کی جانب بڑھتے ہیں، تو وہ اپنے کو ''مکمل اور غیر مشروط معافی" جاری کر سکتے ہیں۔
عام طور پر جب صدر کسی کو معافی دینے کا اختیار استعمال کرتے ہیں تو دستاویزات میں واضح ہوتا ہے کہ کن جرائم پر اس شخص کو معافی دی جا رہی ہے۔ اسی طرح صدر ٹرمپ نے معافی کے لیے اختیار حالیہ مہینوں میں استعمال کیا جس میں انہوں نے اپنے کئی سابقہ ساتھیوں کو جرائم پر معافی کا اعلان کیا۔
یونیورسٹی آف میامی کی قانون کے پروفیسر کیرولائن مالا کوربائن کہتی ہیں کہ صدر ٹرمپ، سابق صدر نکسن کی طرح مکمل معافی کا اختیار استعمال کر سکتے ہیں جس کے تحت ملک کے خلاف ہر نوعیت کے جرائم بھی معاف ہو جاتے ہیں۔
صدر کے خود کو معاف کرنے کے کیا مضمرات ہوں گے؟
بعض قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ ایسا پہلا کبھی نہیں ہوا۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے خود کو معاف کرنے کے عمل سے مستقبل کے صدور کے لیے ایک خطرناک نظیر قائم ہو سکتی ہے۔
کیرولائن مالا کوربائن کے مطابق صدر کے خود کو معاف کرنے کا اعلان ایک خوفناک مثال ہو گی۔ اور اس سے صدور کو یہ اجازت مل جائے گی کہ وہ انتہائی ظالمانہ وفاقی سطح کے جرائم کا ارتکاب کریں اور پھر اس اختیار کے تحت خود کو معاف کرنے کا اعلان کریں۔
وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ صدر خود کو معافی کا اختیار اپنے لیے استعمال کر سکتے ہیں وہ اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ صدارتی اختیارات پر نظر رکھنے کے لیے دیگر راہیں موجود ہیں جن میں کانگریس کی جانب سے مواخذہ شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صدارتی معافی کے باوجود صدر کو کسی ریاست کی جانب سے قانونی چارہ جوئی سے استثنٰی نہیں ملتا۔
کیا صدارتی معافی کے باوجود قانونی چارہ جوئی ہو سکتی ہے؟
ایسے میں جب صدارتی معافی مستقل اور ناقابلِ واپسی ہوتی ہے۔ خود کو معافی دینے کی صورت میں ٹرمپ کو مستقبل میں قانونی چارہ جوئی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
جو بائیڈن واضح کر چکے ہیں کہ وہ اس حق میں نہیں ہیں کہ محکمہ انصاف ان کے پیش رو سے تحقیقات کرے۔ البتہ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی معافی کا اختیار اپنے لیے استعمال کیا تو محکمہ انصاف ان کے خلاف الزامات عائد کر سکتا ہے۔ تاکہ خود کو معافی کی آئینی حیثیت کو دیکھا جا سکے۔
یہ معاملہ سپریم کورٹ بھی جا سکتا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق عدلیہ نے کبھی اس معاملے پر رائے نہیں دی۔
یونیورسٹی آف میامی کی قانون کے پروفیسر کیرولائن مالا کوربائن کہتی ہیں کہ اس پر باآسانی بحث کی جا سکتی ہے کہ یہ ایک آئین اور قانون کا معاملہ ہے اسے عدالت کو حل کرنا چاہیے۔ اور اس میں سیاست شامل نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ محکمۂ انصاف کی جانب سے کارروائی کے خطرے کے پیشِ نظر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی معافی کے لیے صدارتی اختیار کے استعمال کے معاملے سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔
کیا مائیک پینس صدر بن کر ٹرمپ کو معافی دے سکتے ہیں؟
ایسا ہونے کا امکان موجود ہے۔ البتہ صدر ٹرمپ نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ 20 جنوری کو اپنی صدارت کی مدت مکمل ہونے سے قبل مستعفی ہو سکتے ہیں۔ یہ نظیر موجود ہے کہ صدر کو ان کے بعد آنے والے صدر کی جانب سے صدارتی معافی دی جاتی رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
صدر رچرڈ نکسن نے 1974 میں واٹر گیٹ اسکینڈل پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا اور ان کے بعد ان کے نائب صدر جیرالڈ فورڈ صدر بن گئے تھے جنہوں نے رچرڈ نکسن کو امریکہ کے خلاف کیے گئے تمام جرائم پر صدارتی معافی دینے کا اعلان کیا تھا۔
جیرالڈ فورڈ اس بات پر زور دیتے رہے تھے کہ انہوں نے ایسا قومی مفاد میں کیا تھا۔ البتہ ناقدین ہمیشہ سے کہتے ہیں یہ صدارتی معافی اس طرح تھی جیسے صدر رچرڈ نکسن نے خود کو معاف کیا ہو۔