کینیڈا میں ایک خاندان کے چار افراد کو ہلاک کرنے والاشخص مسلمانوں کو شکار کرنا چاہتا تھا: استغاثہ

مقتول خاندان کی یادگار پر جمع سوگوار لوگ۔

کینیڈا میں ایک اہم مقدمے میں جو ایک ہی خاندان کے چار افراد کی ہلاکت سے متعلق ہے، استغاثہ نے منگل کو اپنےاختتامی دلائل میں ملزم کو ایک ایسے انتہا پسند سے تعبیر کیا ہ جو اس وقت مسلمانوں کو اپناشکار بنا نےکے لیے ڈحونڈ رہا تھاجب اس نے اپنے پک اپ ٹرک کو چہل قدمی کرنے والے ایک خاندان پر چڑھا دیا۔

نیتھنیل ویلٹ مین پر ، جو اب 22 سال کے ہیں، جون 2021 میں اونٹاریو کے علاقے لندن میں افضل خاندان کے چار افراد کو ہلاک کرنے کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے۔

اس کیس میں پہلی بار کینیڈا کی جیوری سے کہا گیا ہے کہ وہ سفید فام بالادستی سے متعلق دہشت گردی کے محرکات پر غور کرے۔

اس سے پہلے کہ مقدمے کے اختتامی دلائل میں استغاثہ اور ملزم کا دفاع کرنے والے وکیل کے موقف پر بات کریں ، اس مقدمے کا پس منظر جانتے ہیں۔

ہلاک ہونے والے افراد کون تھے؟

موت کا شکار ہونے والوں میں 46 سالہ سلمان افضل، ان کی 44 برس کی بیوی مدیحہ، بیٹی 15 سالہ یمنیٰ اور 74 برس کی دادی شامل ہیں۔جبکہ اس وقت دس سال کا بیٹا شدید زخمی ہوا تھا۔

خاندان کے سربراہ سلمان افضل ایک فزیو تھیراپسٹ تھے، ان کی اہلیہ ویسٹرن یونیورسٹی لندن سے سول انجنئیرنگ میں پی ایچ ڈی کر رہی تھیں۔ ان کی بیٹی 9th گریڈ کی پڑھائی مکمل کر رہی تھی اور دادی ان سے ملنے کے لئے کینیڈا آئی ہوئی تھیں۔

کینیڈا: آہوں اور سسکیوں میں پاکستانی خاندان سپردِ خاک

ان کی موت کے بعد عزیزوں دوستوں پڑوسیوں کی جانب سے اس خاندان کے لئے محبت بھرے جذبات اور ان کی المناک ہلاکت پر غم و غصے کا غیر معمولی اظہار سامنے ٓ آیا ۔

"وہ سونے جیسے لوگ تھے۔۔ہمیشہ ہنستے مسکراتے۔۔۔کبھی کسی سے کچھ نہیں کہتے تھے۔" صبور خان کو یقین نہیں آرہا کہ ان کے اتنے پیارے دوست۔۔۔اتنی محبت کرنے والا خاندان آناً فاناً ختم ہو گیا۔

ان کا دس سالہ بیٹاخمی حالت میں اسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔

کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے فوری طور پر اپنے ٹوئٹر پیغام میں متاثرہ خاندان کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کیا اور یقین دلایا کہ وہ مسلم کمیونٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلامو فوبیا کی ہماری کمیونٹیز میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ نفرت گھناؤنی اور شرمناک ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے۔ انہوں نے اسے حادثہ نہیں بلکہ ایک دہشت گرد حملہ کہا تھا۔

پولیس رپورٹ کے مطابق حملہ آور ویلٹ مین لندن شہر کا ہی رہائشی تھا جس نے جان بوجھ کر رکاوٹ عبور کی اور چوراہے پر سگنل کے انتظار میں کھڑے خاندان کو اپنے ٹرک سے روند ڈالا۔

واقعے کے فوری بعد پولیس نے ویلٹ مین کو قریبی پارکنگ لاٹ سے گرفتار کر لیا تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

مسلم خاندان کا قتل حادثہ نہیں بلکہ نفرت پر مبنی دہشت گرد حملہ تھا: جسٹن ٹروڈو

لندن، اونٹاریو کے بارے میں وہاں آباد پاکستانیوں کے مطابق یہ مختصر مگر مختلف النوع آبادی کا علاقہ ہے اور زیادہ تر وہاں عرب آباد ہیں اور زندگی نہایت پر سکون ہے۔

اکٹر محمد اقبال مسعود الندوی، کینیڈا میں کونسل آف امام کے چئیرمین ہیں ۔ وہ اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ یا اکنا کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ اانہوں نے بتایا تھاکہ کینیڈا میں پارلیمنٹ نے کچھ قوانین بھی منظور کئے تھےجن کے تحت اسلامو فوبیا پر مبنی کارروائی کو دہشت گردی کے زمرے میں ڈالنے کے لئے کہا گیا تھا اور مسلمان اسے اپنی ایک کامیابی تصور کر رہے تھے۔

خاندانی دوست صبور خان نے بتایا کہ دہشت گردی کا شکار ہونے والا یہ خاندان 14 برس سے ان کے پڑوس میں آباد تھا۔ بہت خوش اخلاق اور ہر دم مدد پر تیار۔۔۔ کوئی کچھ کہہ دیتا تو بھی یہ ناراض نہیں ہوتے تھے۔ ہر دم ہنستے مسکراتے۔۔۔پر امن یہ لوگ سب کے پسندیدہ بھی تھے۔ پھر بھی نفرت کا شکار ہوگئے جس کا انہیں یقین نہیں آتا۔

کینیڈا میں اسلامو فوبیا اور امیگریشن کے حوالے سے اہم مقدمے میں استغاثہ اور دٖفاع کا موقف

ملزم ویلٹ مین نےقتل کے چار الزامات میں قصوروار نہ ہونے کی استدعا کی ہے، جن کے بارے میں استغاثہ کا کہنا ہے کہ پہلے سے سوچا سمجھاگیا اقدام تھا، اور ساتھ ہی اس پرقتل کی کوشش کا بھی ایک الزام ہے۔

اٹارنی نے کہا جب ویلٹ مین لندن کی ایک سڑک پر افضل خاندان کے پاس سے گزرا، تو اس نے اپنا پک اپ ٹرک گھمایا اور تیز رفتاری سے پیڈل کو دبا کر درمیانی رکاوٹ کو عبور کرتے ہوئے اپنا ٹرک ان پر چڑھا دیا۔

46 سالہ سلمان افضل، ان کی اہلیہ مدیحہ سلمان، ان کی بیٹی یمنیٰ اور اان کی ماں طلعت افضل ہلاک ہوگئے۔ان کے ا بیٹے کو شدیدزخم آئے۔

ویلٹ مین کو قریبی پارکنگ میں گرفتار کیا گیا اس نےپولیس کو بتایا کہ وہ مسلم امیگریشن کے خلاف "سخت پیغام بھیجنا" چاہتا ہے۔

پراسیکیوٹر فریزر بال نے کہا کہ وہ ہ پیغام "سفاکانہ اور خوفناک تھا: یعنی اس ملک کو چھوڑ دو ورنہ ائندہ(ہدف) آپ اور آپ کے پیارے ہو سکتے ہیں۔"

دفاع کا استدلال

قتل کے لیے ویلٹ مین کی ذمہ داری کو تسلیم کرتے ہوئےان کےدفاع نے کہا کہ اسے سزا قتل عام کے کم الزام کے تحت سنائی جانی چاہیے۔

واضح رہے کہ ویلٹ مین کو فرسٹ ڈگری کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قتل عام کی سزا زیادہ سے زیادہ سات سال قید ہے۔

پراسیکیوٹر فریزر بال نے جیوری کو بتایا کہ ملزم کے پولیس کے سامنے اعتراف اسمیت ن کے پاس ہر وہ چیز موجود ہے جس کی انہیں ممکنہ طور پر اس کیس میں سزا سنانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ویلٹ مین کے کمپیوٹر پر انہیں دہشت گردی کاایک منشورملا تھا، جس میں اس نے سفید فام قوم پرستی کی حمایت کی تھی اور مسلمانوں سے اپنی نفرت کو بیان کیا تھا۔

وکیل دفاع کرسٹوفر ہکس نے دلیل دی کہ ویلٹ مین ذہنی عارضے اور بچپن کے صدمات کی وجہ سے "ڈپریشن اور اضطراب" میں مبتلا تھے۔

ہکس کے مطابق ویلٹ مین نے حملے سےقبل منشیات کا استعمال کیا تھا جس کی وجہ سے حقیقت اور خواب میں تمیز نہیں کرسکتا تھا اور اس کا دماغ انتشار کا شکار تھا۔

وکیل دفاع نے اپنے دلائل میں اعتراف کیاکہ"وہ(ملزم) ان لوگوں کی موت کا ذمہ دار ہے،"لیکن انہوں نے مزید کہا کہ ویلٹ مین قتل یا دہشت گردی کے لیے ضروری "منصوبہ بندی اور سوچ بچار کرنےکے لیے ذہنی طور پر صحت مند نہیں تھا۔

2017 میں کیوبیک سٹی کی ایک مسجد میں فائرنگ کے واقعے کے بعد سے یہ کینیڈا میں سب سے مہلک مسلم مخالف حملہ تھا جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔مسجد کی شوٹنگ کے مرتکب پر دہشت گردی کا الزام نہیں لگایا گیا تھا۔

اس رپورٹ کا کچھ حصہ اے ایف پی کی معلومات پر مبنی ہے۔