’جمہوریہ وسطی افریقہ کی عوام شدید مشکلات سے دوچار ہے، جن کے ساتھ ناقابلِ بیان زیادتیاں جاری ہیں۔ بین الاقوامی امداد کو یقینی بنانے کے لیے میں وہ سب کچھ کروں گا جو میرے بس میں ہوگا‘: بان کی مون
واشنگٹن —
افریقہ اور یورپ کے رہنماؤں کا اس وقت برسلز میں ایک سربراہ اجلاس جاری ہے، جس میں اُن کا دھیان جمہوریہ وسطی افریقہ کے بحران کے حل پر مرتکز ہے۔
ایک اخباری کانفرنس میں، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں پر زور دیں گے کہ وہ جمہوریہ وسطی افریقہ کی سلامتی کو یقینی بنانے اور مالی اعانت کی فراہمی کے سلسلے میں مدد دیں۔
بقول اُن کے، ’جمہوریہ وسطی افریقہ کی عوام شدید مشکلات سے دوچار ہے، جن کے ساتھ ناقابلِ بیان زیادتیاں جاری ہیں۔ بین الاقوامی امداد کو یقینی بنانے کے لیے میں وہ سب کچھ کروں گا جو میرے بس میں ہوگا۔‘
مسٹر بان نے کہا کہ بین الاقوامی برادری مشکلات میں گھرے ہوئے اِس ملک کی جس حد تک وعدہ کیا گیا تھا، امداد نہیں کرپائی۔
اُنھوں نے کہا کہ وہاں موجود افریقی اور فرانسسی امن کار فورس کے پاس وسائل کی کمی ہے، جب کہ اُس کی ذمہ داریاں مشکل تر ہیں۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ جمہوریہ وسطی افریقہ کو سب کی شمولیت سے جاری کیے جانے والے سیاسی عمل اور رقوم کی ضرورت ہے، تاکہ عام معمولات زندگی کو پھر سے رواں دواں کرنے کے لیے حکومت کو مقامی پولیس اور سکیورٹی اہل کار میسر آسکیں۔
اس سربراہ اجلاس میں 70 افریقی اور یورپی ممالک کے رہنما شرکت کر رہے ہیں، جو ایسے وقت منعقد ہو رہا ہے جب یورپی یونین سرکاری طور پر جمہوریہ وسطی افریقہ میں فوجی کارروائی کا آغاز کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
یورپی یونین نے مشکل میں پھنسے ہوئے اس خطے میں 1000تک عارضی فورس تعینات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ وہ افریقی یونین کےتقریباً 6000فوج کے جتھے اور فرانس کی 2000فوجوں کے ساتھ مل کر شہریوں کی حفاظت کا کام کرنے اور میلشیاؤں کو غیر مسلح کرنے کا کام کرے گی۔
غیر ملکی امن کار دستے اس وقت مسلمانوں کو محفوظ کرنے پر دھیان مرکوز کیے ہوئے ہیں، جن پر زیادہ تر ’بلاکا‘ مخالف عیسائی شدت پسند حملے کر رہے ہیں۔
حالیہ مہینوں کے دوران ہزاروں مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگ نکلے ہیں، جن میں متعدد افراد نے ہمسایہ ملکوں میں پناہ لی ہے۔
سلیکا نامی باغیوں نے، جن کی زیادہ تر تعداد مسلمانوں پر مشتمل ہے، مار دھاڑ اور لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا، جس کے جواب میں گذشتہ برس بلاکا مخالف میلیشا سامنے آئی۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ کا کہنا ہے کہ اُس نے جمہوریہ وسطی افریقہ کے ایک دورافتادہ گاؤں میں ہونے والے قتل عام کا ثبوت اکٹھا کرلیا ہے، جو دونوں، سلیکا اور ملاکا مخالف شدت پسندوں کے ہاتھوں سرزد ہوئے۔
گروپ نے کہا ہے کہ گئین نامی دیہات میں فروری میں ہونے والے اِن حملوں کے دوران، شدت پسندوں کے ہاتھوں 72 مسلمان افراد اور نوجوان ہلاک کیے گئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہلے کہ سلیکا کے جنگجو چرواہوں پر مشتمل ’پیئول‘ نامی گروہ نے گئین سے تقریباً 30 کلومیٹر دور واقع ایک گاؤں میں ایک اور حملے میں 19 افراد کو ہلاک کیا، جب کہ اس میں، دو بلاکا مخالف جنگجو بھی مارے گئے۔
ایک اخباری کانفرنس میں، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں پر زور دیں گے کہ وہ جمہوریہ وسطی افریقہ کی سلامتی کو یقینی بنانے اور مالی اعانت کی فراہمی کے سلسلے میں مدد دیں۔
بقول اُن کے، ’جمہوریہ وسطی افریقہ کی عوام شدید مشکلات سے دوچار ہے، جن کے ساتھ ناقابلِ بیان زیادتیاں جاری ہیں۔ بین الاقوامی امداد کو یقینی بنانے کے لیے میں وہ سب کچھ کروں گا جو میرے بس میں ہوگا۔‘
مسٹر بان نے کہا کہ بین الاقوامی برادری مشکلات میں گھرے ہوئے اِس ملک کی جس حد تک وعدہ کیا گیا تھا، امداد نہیں کرپائی۔
اُنھوں نے کہا کہ وہاں موجود افریقی اور فرانسسی امن کار فورس کے پاس وسائل کی کمی ہے، جب کہ اُس کی ذمہ داریاں مشکل تر ہیں۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ جمہوریہ وسطی افریقہ کو سب کی شمولیت سے جاری کیے جانے والے سیاسی عمل اور رقوم کی ضرورت ہے، تاکہ عام معمولات زندگی کو پھر سے رواں دواں کرنے کے لیے حکومت کو مقامی پولیس اور سکیورٹی اہل کار میسر آسکیں۔
اس سربراہ اجلاس میں 70 افریقی اور یورپی ممالک کے رہنما شرکت کر رہے ہیں، جو ایسے وقت منعقد ہو رہا ہے جب یورپی یونین سرکاری طور پر جمہوریہ وسطی افریقہ میں فوجی کارروائی کا آغاز کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
یورپی یونین نے مشکل میں پھنسے ہوئے اس خطے میں 1000تک عارضی فورس تعینات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ وہ افریقی یونین کےتقریباً 6000فوج کے جتھے اور فرانس کی 2000فوجوں کے ساتھ مل کر شہریوں کی حفاظت کا کام کرنے اور میلشیاؤں کو غیر مسلح کرنے کا کام کرے گی۔
غیر ملکی امن کار دستے اس وقت مسلمانوں کو محفوظ کرنے پر دھیان مرکوز کیے ہوئے ہیں، جن پر زیادہ تر ’بلاکا‘ مخالف عیسائی شدت پسند حملے کر رہے ہیں۔
حالیہ مہینوں کے دوران ہزاروں مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگ نکلے ہیں، جن میں متعدد افراد نے ہمسایہ ملکوں میں پناہ لی ہے۔
سلیکا نامی باغیوں نے، جن کی زیادہ تر تعداد مسلمانوں پر مشتمل ہے، مار دھاڑ اور لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا، جس کے جواب میں گذشتہ برس بلاکا مخالف میلیشا سامنے آئی۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ کا کہنا ہے کہ اُس نے جمہوریہ وسطی افریقہ کے ایک دورافتادہ گاؤں میں ہونے والے قتل عام کا ثبوت اکٹھا کرلیا ہے، جو دونوں، سلیکا اور ملاکا مخالف شدت پسندوں کے ہاتھوں سرزد ہوئے۔
گروپ نے کہا ہے کہ گئین نامی دیہات میں فروری میں ہونے والے اِن حملوں کے دوران، شدت پسندوں کے ہاتھوں 72 مسلمان افراد اور نوجوان ہلاک کیے گئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہلے کہ سلیکا کے جنگجو چرواہوں پر مشتمل ’پیئول‘ نامی گروہ نے گئین سے تقریباً 30 کلومیٹر دور واقع ایک گاؤں میں ایک اور حملے میں 19 افراد کو ہلاک کیا، جب کہ اس میں، دو بلاکا مخالف جنگجو بھی مارے گئے۔