وزیراعظم نےعشائیہ میں وزیراعلیٰ پنجاب کو اس لئے دعوت دی ہے کہ وہ انہیں اس بات پر قائل کر سکیں کہ پنجاب اسمبلی بھی قومی اسمبلی کے ساتھ ہی تحلیل کردی جائے: وفاقی حکومتی ذرائع
سندھ میں نگراں وزیر اعلیٰ کیلئے حکومت نے دو جبکہ اپوزیشن جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے پانچ نام تجویز کیے ہیں۔ تاہم، صوبائی اسمبلی کب تحلیل ہو گی، اس کا جواب ہفتہ کو وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم کی ملاقات کے بعد ملنے کا امکان ہے۔
جمعہ کو اپوزیشن جماعت ایم کیو ایم کے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سردار احمد نے میڈیا سے گفتگو میں نگراں وزیراعلیٰ کے پانچ نام تجویز کیے جن میں جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد، بیرسٹرحبیب الرحمن، جسٹس (ر) غوث محمد، جسٹس (ر) محمود عالم رضوی اور جسٹس (ر) منیب احمد خان شامل ہیں۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے جسٹس ریٹائرڈ حامد مرزا اور دیدار حسین شاہ کے نام سامنے آئے ہیں۔
سیاسی حلقوں کاخیال ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم چاہیں تو نگراں وزیراعلیٰ کے نام پر چند لمحوں میں اتفاق کرسکتی ہیں اور ان کیلئے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد بتائے جاتے ہیں جن کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے اور وہ اس سلسلے میں دونوں جماعتوں کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایم کیو ایم تقریباً ایک ماہ قبل ہی حکومت سے الگ ہوکر اپوزیشن میں آئی ہے، اسے اتفاق کہیں یا منصوبہ بندی کہ ایم کیو ایم اس روز اپوزیشن بینچوں پر آئی تھی جب ہائی کورٹ کی جانب سے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی تقرری کیلئے اسپیکر نثار کھہڑو کو دی گئی 10 روزہ مدت ختم ہو رہی تھی۔ یہ مہلت مسلم لیگ فنکشنل اور نیشنل پیپلزپارٹی و عوامی نیشنل پارٹی کی اپوزیشن لیڈر کے تقرر سے متعلق درخواستوں پر دی گئی تھی۔
مبصرین کے مطابق، ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے باوجود گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کا عہدے سے مستعفی نہ ہونا بھی مخالفین کے اس تاثر کو تقویت دیتا نظر آتا ہے کہ ایم کیو ایم کی علیحدگی کا اصل مقصد ہی نگراں وزیراعلیٰ کا تقرر کرنا تھا۔ تاہم، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت اس تاثر کی مسلسل نفی کرتی رہی ہیں۔
دوسری جانب، یہ سوال سب کی توجہ کا مرکز ہے کہ کیا ہفتہ کو قومی اسمبلی کے ساتھ سندھ اسمبلی بھی تحلیل ہوسکتی ہے؟ مبصرین کے مطابق، اس سوال کا جواب ہفتہ کو اسلام آباد میں وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے درمیان ملاقات کے بعد ہی مل سکتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم نے عشائیہ میں وزیراعلیٰ پنجاب کو اس لئے دعوت دی ہے کہ وہ انہیں اس بات پر قائل کر سکیں کہ پنجاب اسمبلی بھی قومی اسمبلی کے ساتھ ہی تحلیل کر دی جائے۔
سندھ اسمبلی کی مدت چار اپریل تک ہے اور پنجاب اسمبلی کی مدت سات اپریل کو پوری ہو رہی ہے۔ حکومت کی خواہش ہے کہ تمام اسمبلیاں ایک ہی دن تحلیل ہوں جبکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان نے یہ بھی دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر سندھ اور بلوچستان میں نگران وزرائے اعلیٰ کی تعیناتی میں انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا تو وہ ایک ہی دن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا الیکشن نہیں ہونے دیں گے۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگر16 مارچ کو پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں ہوتی تو سندھ اسمبلی بھی تحلیل نہیں ہو گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کے علاوہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی بھی بدھ کو وزیراعظم کے عشائیہ میں شریک ہوں گے ۔ اگر شہباز شریف مان گئے تو شام آٹھ بجے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف قوم سے الوداعی خطاب میں بیک وقت اسمبلیاں تحلیل ہونے کا اعلان بھی کردیں گے، کیونکہ خیبر پختونخوا میں پہلے ہی نگراں وزیر اعلیٰ پر اتفاق ہو چکا ہے۔
جمعہ کو اپوزیشن جماعت ایم کیو ایم کے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سردار احمد نے میڈیا سے گفتگو میں نگراں وزیراعلیٰ کے پانچ نام تجویز کیے جن میں جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد، بیرسٹرحبیب الرحمن، جسٹس (ر) غوث محمد، جسٹس (ر) محمود عالم رضوی اور جسٹس (ر) منیب احمد خان شامل ہیں۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے جسٹس ریٹائرڈ حامد مرزا اور دیدار حسین شاہ کے نام سامنے آئے ہیں۔
سیاسی حلقوں کاخیال ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم چاہیں تو نگراں وزیراعلیٰ کے نام پر چند لمحوں میں اتفاق کرسکتی ہیں اور ان کیلئے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد بتائے جاتے ہیں جن کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے اور وہ اس سلسلے میں دونوں جماعتوں کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایم کیو ایم تقریباً ایک ماہ قبل ہی حکومت سے الگ ہوکر اپوزیشن میں آئی ہے، اسے اتفاق کہیں یا منصوبہ بندی کہ ایم کیو ایم اس روز اپوزیشن بینچوں پر آئی تھی جب ہائی کورٹ کی جانب سے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی تقرری کیلئے اسپیکر نثار کھہڑو کو دی گئی 10 روزہ مدت ختم ہو رہی تھی۔ یہ مہلت مسلم لیگ فنکشنل اور نیشنل پیپلزپارٹی و عوامی نیشنل پارٹی کی اپوزیشن لیڈر کے تقرر سے متعلق درخواستوں پر دی گئی تھی۔
مبصرین کے مطابق، ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے باوجود گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کا عہدے سے مستعفی نہ ہونا بھی مخالفین کے اس تاثر کو تقویت دیتا نظر آتا ہے کہ ایم کیو ایم کی علیحدگی کا اصل مقصد ہی نگراں وزیراعلیٰ کا تقرر کرنا تھا۔ تاہم، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت اس تاثر کی مسلسل نفی کرتی رہی ہیں۔
دوسری جانب، یہ سوال سب کی توجہ کا مرکز ہے کہ کیا ہفتہ کو قومی اسمبلی کے ساتھ سندھ اسمبلی بھی تحلیل ہوسکتی ہے؟ مبصرین کے مطابق، اس سوال کا جواب ہفتہ کو اسلام آباد میں وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے درمیان ملاقات کے بعد ہی مل سکتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم نے عشائیہ میں وزیراعلیٰ پنجاب کو اس لئے دعوت دی ہے کہ وہ انہیں اس بات پر قائل کر سکیں کہ پنجاب اسمبلی بھی قومی اسمبلی کے ساتھ ہی تحلیل کر دی جائے۔
سندھ اسمبلی کی مدت چار اپریل تک ہے اور پنجاب اسمبلی کی مدت سات اپریل کو پوری ہو رہی ہے۔ حکومت کی خواہش ہے کہ تمام اسمبلیاں ایک ہی دن تحلیل ہوں جبکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان نے یہ بھی دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر سندھ اور بلوچستان میں نگران وزرائے اعلیٰ کی تعیناتی میں انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا تو وہ ایک ہی دن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا الیکشن نہیں ہونے دیں گے۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگر16 مارچ کو پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں ہوتی تو سندھ اسمبلی بھی تحلیل نہیں ہو گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کے علاوہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی بھی بدھ کو وزیراعظم کے عشائیہ میں شریک ہوں گے ۔ اگر شہباز شریف مان گئے تو شام آٹھ بجے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف قوم سے الوداعی خطاب میں بیک وقت اسمبلیاں تحلیل ہونے کا اعلان بھی کردیں گے، کیونکہ خیبر پختونخوا میں پہلے ہی نگراں وزیر اعلیٰ پر اتفاق ہو چکا ہے۔