موصل کے قریب واقع ایک قصبے میں اتوار کے روز عراقی اور کُرد افواج نے ایک نئی کارروائی کا آغاز کیا، ایسے میں جب امریکی وزیرِ دفاع ایش کارٹر نے خطے کا دورہ کیا جس کا مقصد داعش کو عراق کے اِس دوسرے بڑے شہر سے پسپا کرنے سے متعلق حکمتِ عملی کا جائزہ لینا تھا۔
کارٹر اتوار کے دِن اربیل میں تھے، جہاں اُنھوں نے کُرد رہنمائوں اور فوجی کمانڈروں سے بات کی، جو موصل کو واگزار کرانے کی جاری لڑائی میں کامیابی کے قریب ہیں۔ اپنے غیر اعلانیہ دورے میں، آمد کے فوری بعد کارٹر کُرد رہنما مسعود بارزانی سے ملے، جو ملک کے شمالی حصے میں کُردستان کے وسیع تر علاقے کے صدر ہیں۔
کُرد پیش مرگہ افواج موصل کے شمال مشرق کے پاس واقع قصبہ جات کی جانب پیش قدمی کر رہی ہیں، تاکہ دیگر فوجوں کے شہر میں داخلے کے لیے راہ ہموار کی جا سکے جہاں 10 لاکھ شہری آباد ہیں، اور اِس مشن کے ساتھ کہ داعش کے لڑاکوں پر نئی شدید ضرب ڈالی جائے۔
پیش مرگہ افواج اتوار کے روز بشیقہ کے قصبے پر نئے حملے کی تیاری کر رہی ہیں۔
ہفتے کے روز بغداد میں عراقی وزیر اعظم اور جمعے کے دِن انقرہ میں ترکی کے صدر کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے بعد، کارٹر موصل کا قبضہ چھڑانے کی لڑائی میں ترکی کے کردار کے بارے میں بھی گفتگو کرتے رہے ہیں۔
عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے شہر کو خالی کرانے کے لیے ترکی کی جانب سے فوجی پیش قدمی میں شمولیت کی کوشش کو مسترد کیا ہے۔
عبادی نے ہفتے کے روز کہا کہ ترکی کی مدد کے بغیر، موجودہ اتحاد اِس قابل ہے کہ وہ خود جاری لڑائی سے نبردآزما ہو سکے۔
کارٹر کے ساتھ غیر اعلانیہ گفت و شنید کے بعد، عبادی نے یہ بات بغداد میں کہی ہے۔ کارٹر اِس بات کے کوشاں رہے ہیں کہ ترکی کی سنی قیادت اور عبادی کی شیعہ حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے تنائو میں کمی لانے کی کوشش کی جائے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے منگل کے روز مشکل میں پھنسے باہمی تعلقات پر بات چیت کی، موصل کی لڑائی میں کردار ادا کرنے اور ترک فوجوں کو انتباہ جاری کرتے ہوئے، جو پہلے ہی سے شمالی عراق میں موجود ہیں، کہا کہ وہ عراق کی شیعہ حکومت سے احکامات نہیں لیں گے۔
العبادی کے ساتھ ہونے والی گفتگو پر تبصرہ کرتے ہوئے، اردوان نے کہا کہ ''ترکی کی فوج اب اتنی بھی گئی گزری نہیں کہ وہ تم سے احکامات لے''۔
ہفتے کو جواب دیتے ہوئے، عبادی نے کہا کہ ''مجھے پتا ہے کہ ترک شمولیت کے خواہاں ہیں۔ ہم اُن سے کہتے ہیں کہ شکریہ۔ یہ ایسا معاملہ ہے جسے عراقی خود نمٹیں گے اور ہم موصل اور دیگر علاقوں پر فتح حاصل کر لیں گے''۔
بغداد میں اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے، کارٹر نے موصل کی لڑائی میں ترک کردار کے بارے میں کہا کہ یہ معاملہ بہت ہی مشکل ہے۔ اُنھوں نے اِس بات پر بھی زور دیا کہ داعش کے خلاف جاری کارروائی میں عراق کے اقتدارِ اعلیٰ کا معاملہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔