لاہور ریلی پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج

جن رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں ان میں شہباز شریف بھی شامل ہیں جنہوں نے جمعے کو ایئر پورٹ کی جانب جانے والی مرکزی ریلی کی قیادت کی تھی۔

ڈی آئی جی آپریشن نے بتایا کہ تمام افراد کے خلاف مقدمات میں دہشت گردی، کارِ سرکار میں مداخلت، دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی دفعات شامل کی گئیں ہیں۔

پنجاب پولیس نے جمعے کو لاہور میں ریلی نکالنے پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سمیت پارٹی کے کئی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات درج کرلیے ہیں جن میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل ہیں۔

ڈی آئی جی آپریشن لاہور شہزاد اکبر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ مسلم لیگی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف لاہور کے مختلف تھانوں میں 12 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

مقدمات میں جن رہنماؤں کو ملزم نامزد کیا گیا ہے ان میں شہباز شریف کے علاوہ ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز، سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزرا خواجہ سعد رفیق اور مریم اورنگزیب، جاوید ہاشمی، طلال چودھری، راجہ ظفر الحق، مشاہد حسین سید، مصدق ملک، سائرہ افضل تارڑ، عظمیٰ بخاری، میئر لاہور کرنل ریٹائرڈ مبشر جاوید اور کئی مرکزی اور مقامی رہنما اور کارکن شامل ہیں۔

ڈی آئی جی آپریشن نے بتایا کہ تمام افراد کے خلاف مقدمات میں دہشت گردی، کارِ سرکار میں مداخلت، دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی دفعات شامل کی گئیں ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کا مرکزی جلوس نواز شریف کے استقبال کے لیے ایئر پورٹ کی جانب رواں دواں ہے۔

ان کے مطابق ایف آئی آر میں پولیس اہلکاروں پر تشدد، توڑ پھوڑ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات بھی شامل ہیں اور یہ تمام مقدمات سٹی ڈویژن، کینٹ ڈویژن، اقبال ٹاؤن ڈویژن اور سول لائنز ڈویژن میں درج کیے گئے ہیں۔

مقدمات درج کیے جانے پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سینیٹر مصدق ملک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا تو کبھی کسی آمر کی حکومت میں بھی نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا، "اللہ جانے یہ کیسی نگران حکومت ہے۔ ہم ایک پر امن مقصد کے لیے جمہوری حق کے تحت نکلے تھے لیکن ہم پر دہشت گردی کی دفعات لگا دی گئیں ہیں۔ ایس حرکتوں سے یہ ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔ بلکہ اس سے حوصلے مزید بڑھیں گے۔"

مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے جانے پر پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما عبدالعلیم خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون سب کے لیے یکساں ہوتا ہے اور لاہور شہر میں لگائی گئی دفعہ 144 کے تحت انہوں نے بھی اپنی تمام انتخابی ریلیاں اور کارنر میٹنگز منسوخ کر دی تھیں۔

لاہور کے مختلف علاقوں سے ایئر پورٹ جانے کی کوشش کرنے والے کارکنوں کی پولیس اور رینجرز کے ساتھ مختلف مقامات پر جھڑپیں ہوئی تھیں۔

علیم خان نے کہا کہ ضلعی حکومت کا واضح پیغام تھا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو شہر بھر میں کسی بھی ریلی، جلسے، جلوس یا کارنر میٹنگ کی اجازت نہیں۔

ان کےبقول، "جب ہم عمل کر سکتے ہیں تو دوسری جماعتوں کو بھی اس پر عمل کرنا چاہیے تھا۔ قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے۔"

نواز شریف کے استقبال کے لیے نکالی جانے والی ریلی کے بعد کی صورتِ حال اور مستقبل کا لائحۂ عمل طے کرنے کے لیے پاکستان مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف کی زیرِ صدارت ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہفتے کو پارٹی رہنماؤں کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ تمام رہنما اور امیدوار اپنی اپنی انتخابی مہم بھرپور طریقے سے چلائیں گے اور انتخابی مہم میں نواز شریف کا پیغام "ووٹ کو عزت دو" گھر گھر پہنچایا جائے گا۔

مسلم لیگ (ن) کا ایک کارکن ہاتھ میں ڈنڈا اٹھائے پولیس اہلکاروں کی جانب بڑھ رہا ہے۔

اجلاس کے بعد جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عوام کی عدالت نے احتساب عدالت کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے اور 25 جولائی کو پاکستانی عوام ایک اور فیصلہ دے گی۔

جمعے کو نواز شریف کے استقبال کے لیے نکالی جانے والی ریلیوں کے باعث لاہور میں راوی ٹول پلازہ، جوڑے پل اور سگیاں کے علاقے میدانِ جنگ بنے رہے تھے جہاں جمع ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس اور رینجرز نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی تھی۔

سابق وزیرِ اعظم میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے بعد گرفتاری پیش کرنے کے لیے جمعے کو پاکستان واپس آئے تھے جنہیں لاہور ائیرپورٹ پر اترتے ہوئے گرفتار کرکے روالپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔