وسائل سے مالا مال بحریہ کیسپین یا بحیرہ گیلان کے ارد گرد واقع پانچ ملکوں کے راہنماؤں نے اتوار کے روز ایک سربراہی اجلاس میں سمندر کی قانونی حیثیت کے بارے میں ایک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔
گیلان کے ساحلی ملکوں نے تجارت اور اقتصادی تعاون سے متعلق متعدد دستاویزات پر بھی الگ سے دستخط کیے۔
یہ سربراہی اجلاس ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب روس اور ایران کی معیشتوں کو امریکی تعزیرات کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔
بحیرہ گیلان یورپ اور ایشیا کے درمیان واقع ہے اور پانچ ملکوں آزر بائجان، ایران، قازقستان، روس اور تركمانستان سے گھرا ہوا ہے۔ سمندر کے اندر اور اس کے ساحلوں کے قریب واقع علاقوں میں قدرتی گیس کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں۔سویت یونین کے خاتمے کے بعد سے بحری حدود کی نشاندہی پر موجود تنازعوں کے باعث ساحلی علاقوں کے بیشتر ذخائر کو ابھی تک نہیں چھوا جا سکا۔
اتوار کے روز پانچوں ملکوں نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ اس جانب پہلا قدم ہے۔
روسی صدر ولادی میر پوٹن کا کہنا تھا کہ آج ہمارے تمام ملکوں کے لیے ایک بہت اہم موقع تھا، بحیرہ گیلان یا بحیرہ کیسپین کی قانونی حیثیت سے متعلق ایک کنونشن پر دستخط ہوئے۔ یہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس میں ہمارے اس مشترکہ ورثے کیسپین سمندر کے استعمال اور تحفظ پر تفصیلی اور جامع ضابطوں اور ذمہ داریوں کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی اپنی تقریر میں کچھ ضابطوں کا ذکر کیا۔
انہوں نے کہا کہ بحیرہ گیلان، اس کے ساحل پر واقع ملکوں کی ملکیت ہے۔ اس پر فوجی اڈوں کی تعمیر اور دوسرے ملکوں کے لیے ان کی دستیابی، فوجی بحری جہازوں، طیارہ بردار بحری جہازوں اور آبدوزوں کی آمدو رفت، اس کی فضا پر جنگی طیاروں کی پرواز اور حتیٰ کہ دوسرے ملکوں کے ساز و سامان کی نقل و حمل تک کی ممانعت ہے۔
پانچ ملکوں کے درمیان تیل سے مالا مال سمندر کی زیر آب سطح کی تقسیم کے مسئلے پر ابھی مزید گفت و شنید باقی ہے۔ لیکن کم از کم اس وقت تک دستخط کرنے والے ملک اپنے درمیان پر امن تعاون کا ارادہ رکھتے ہیں۔
قازقستان کے صدر نور سلطان نظربایف نے کہا کہ یہ کنونشن کیسین سی کا ایک قسم کا آئین ہے۔ اسے متعلقہ ملکوں کے حقوق اور فرائض سے منسلک تمام مسائل کے حل کے لیے بنایا گیا ہے اور یہ اس خطے کو مجموعی طور پر سیکیورٹی، استحكام اور خوشحالی کی ضمانت دے گا۔
اس موقع پر کیسپین ملکوں نے تجارت اور نقل و حمل کے متعدد معاہدوں پر دستخط کئے۔ روس اور ایرانی صدور نے دو طرفہ مسائل پر گفتگو کے لیے الگ سے ملاقات کی جن میں شام میں ان کے کردار اور عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران کے جوہری معاہدے سے امریکہ کے الگ ہو جانے کے بعد اس کا مستقبل شامل تھا
ایرنی صدر حسن روحانی کا کہنا تھا کہ ایران روس اور دوسرے ملک جوہری معاہدے کے لائحہ عمل کے اندر رہتے ہوئے تعاون جاری رکھیں گے۔
ایران اور روس دونوں کو ہی امریکہ کی جانب سے نئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔