یوکرین کے مشرقی حصے میں شدید لڑائی کے بعد گزشتہ رات مقامی وقت کے مطابق بارہ بجے عارضی جنگ بندی پر عمل شروع ہو گیا۔
یورپی (ملکوں) کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کی شرائط کے تحت یوکرین کی فورسز اور روس نواز علیحدگی پسند باغیوں نے لڑائی روک دینی تھی۔ اگر یہ عارضی جنگ بندی جاری رہتی ہے تو دونوں فریق ایک بفر زون قائم کرنے کے لیے اپنے بھاری ہتھیاروں کو پیچھے ہٹانا شروع کر دیں گے۔
گزشتہ رات صدر پیٹرو پورو شنکو نے اپنی براہ راست نشر ہونے والی ایک تقریر میں ملک کی مسلح افواج کو فائر روکنے کا حکم دیا۔
فوجی ترجمان ولادی سلاو نے کہا کہ یوکرین کی مسلح افواج نے حکم پر فوری عمل کیا اور ڈونٹسک اور علیحدگی پسندوں کی طرف جھکاؤ رکھنے والے علاقوں میں بھاری توپیں خاموش ہو گئیں۔
تاہم ڈونٹسک میں باغیوں کے رہنما نے کہا کہ اس جنگ بندی کے دوران ان کی فورسز یوکرین کے جنگی دستوں کو شہر چھوڑنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اس سے کچھ دیر قبل پورو شنکو نے ایک بیان میں حکومت کے زیر قبضہ ایک اہم ریلوے مرکز کے ارد گرد ہفتہ کو ہونے والے بدامنی کی وجہ سے جنگ بندی کو درپیش خطرات پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس واقعے میں جمعہ کو یوکرین کے سکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں سمیت کم ازکم 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ہفتہ کو صدر اوباما نے پورو شنکو سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے تمام فریقوں پر شیڈول کے مطابق تشدد بند کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے فائربندی پر عمل سے پہلے کئی گھنٹوں کے دوران ہونے والی لڑائی پر تشویش کا اظہار کیا۔ صدر اوباما نے جرمن چانسلر آنگیلا مرخیل سے فون پر گفتگو میں ان سے بھی اسی طرح کی تشویش کا اظہار کیا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ہفتہ کو اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے ٹیلی فون پر بات چیت میں فائر بندی پر عمل درآمد کی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے منسک معاہدوں کا خیر مقدم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مجوزہ قرار داد کے متعلق نیویارک میں ہونے والی بات چیت پر تبادلہ خیال کیا۔
توقع ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اتوار کو ایک ہنگامی اجلاس ہو گا۔ اقوام متحدہ کے ایک سفارت کار کا کہنا ہے کہ 15 رکنی کونسل روس کی طرف سے تیار کی جانے والی قرارداد کے مسودے پر رائے شماری کرے گی جس میں تمام فریقوں پر معاہدے پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا گیا ہے۔