فریقین کے درمیان معاہدہ؛ کرم میں جنگ بندی پر عمل درآمد شروع

کرم میں گزشتہ کئی دنوں سے جھڑپوں کے سبب شاہراہیں اور کاروباری مراکز بند ہیں۔ (فائل فوٹو)

  • ضلع کرم میں متحارب فریقین کے درمیان کئی دن سے جاری جھڑپیں رک گئی ہیں۔
  • وزیرِ اعلیٰ کی مداخلت سے فریقین جنگ بندی اور مسئلے کو پر امن طور پر مذاکرات سے حل کرنے پر متفق ہوئے۔
  • کرم کے ڈپٹی کمشنر کے مطابق جنگ بندی پر عمل در آمد شروع ہو چکا ہے۔ اتوار کو حالات پر امن رہے۔
  • مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب مختلف علاقوں سے فائرنگ کی آوازیں آتی رہیں۔
  • حکام کے مطابق 21 نومبر سے اب تک فائرنگ کے واقعات میں 130 افراد ہلاک اور 186 زخمی ہوئے ہیں۔

پشاور — پاکستان کے افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلعے کرم میں متحارب فریقین کے درمیان 21 نومبر سے جاری جھڑپیں رک گئی ہیں اور حالات معمول پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔

کئی دن سے جاری مسلسل جھڑپوں کے سبب علاقے میں اشیائے خور و نوش کی شدید قلت پیدا ہو گئی تھی۔

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی مداخلت سے ہفتے کی شام فریقین جنگ بندی اور مسئلے کو پر امن طور پر مذاکرات سے حل کرنے پر متفق ہوئے تھے۔

کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نے اس حوالے سے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جنگ بندی پر عمل در آمد شروع ہو چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اتوار کو ضلع بھر میں حالات پر امن رہے۔ دوسری جانب مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب مختلف علاقوں سے فائرنگ کی آوازیں آ رہی تھیں۔

حکام کے مطابق 21 نومبر سے اب تک فائرنگ کے واقعات میں 130 افراد ہلاک اور 186 زخمی ہوئے ہیں۔

زخمیوں میں متعدد افراد اب بھی پاڑہ چنار، صدا، ہنگو اور کوہاٹ کے اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔

اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم میں فرقہ وارانہ کشیدگی تو گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ تاہم 21 نومبر کو ایک قافلے پر حملے میں 45 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد 22 نومبر کو ضلع کے مختلف جگہوں پر جھڑپیں شروع ہوگئی تھیں جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر 130 کے لگ بھگ اموات ہوئی ہیں۔

ان جھڑپوں دوران متعدد دکانیں اور گھر فائرنگ کی زد میں آ کر تباہ ھوئے ہیں۔مخدوش حالات میں گھروں کو نذر آتش کیے جانے کے واقعات کے سبب کئی خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ لوئر کرم کے مختلف مقامات پر سیز فائر کے بعد پولیس و فورسز کے دستے تعینات ہیں۔ ان کے بقول تمام علاقوں میں فائر بندی کی بھر پور کوشش کی جائے گی۔

ان کا دعویٰ تھا کہ امن و امان کے لیے مشترکہ کوشش جاری ہے۔

SEE ALSO: کرم میں جنگ بندی معاہدے کے باوجود فائرنگ کی اطلاعات

جاوید اللہ محسود کا کہنا تھا کہ متاثرہ علاقوں میں پانچ دن تک فون و انٹرنیٹ سروسز معطل تھیں جو اب بحال کر دی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ علاقے میں بند سڑکیں اور راستے بھی آمد و رفت کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔

جھڑپوں کے باعث پاڑہ چنار - ٹل مین ہائی وے اور پاک افغان خرلاچی بارڈر ہر قسم کی آمد و رفت بند ہے جب کہ کئی علاقوں میں اشیائے خور و نوش، ادویات، ایندھن سمیت دیگر چیزوں کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔

کرم سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما ملک عطاء اللہ نے جنگ بندی اور حالات کے معمول پر آنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ لگ بھگ دو ہفتوں تک کے مسلح جھڑپوں اور کشیدگی کے نتیجے میں اشیائے خوردنی اور دیگر ضروریات زندگی کی سخت قلت ہے۔

انہوں نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں شہری اب اپنی تباہ شدہ املاک کی دوبارہ مرمت میں مصروف ہے۔

مسافر گاڑیوں پر 21 نومبر کو ہونے والی فائرنگ کے واقعے کے بعد بگن نامی قصبے اور نواحی علاقوں میں جلائے گھروں کے متاثرین میں پشاور پریس کلب کے رکن دو صحافی نبی جان اور محمد ریحان بھی شامل ہیں۔

SEE ALSO: کرم میں فائرنگ سے ہلاکتیں؛ کیا یہ صرف زمین کا تنازع ہے؟

دونوں صحافیوں نے جنگ بندی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ متحارب فریقین سے مورچے خالی کرکے وہاں پر اب سیکیورٹی فورسز کے دستے تعینات کیے گئے ہیں۔

نبی جان کے بقول مورچے تو خالی ہو گئے ہیں۔ لیکن بعض علاقوں میں لوگوں کے ذاتی طور پر بنائے گئے مورچوں سے اتوار اور پیر کی درمیانی شب فائرنگ کی آوازیں آتی رہی ہیں۔

محمد ریحان کا کہنا تھا کہ اہم مسئلہ بے گھر ہونے والے افراد کا ہے۔ کئی خاندان اب گھروں کی تباہی کے بعد دیگر علاقوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔

نبی جان نے بتایا کہ ہلال احمر کی جانب سے بے گھر افراد کو خیمے اور دیگر اشیا فراھم کی گئی ہیں۔

علاوہ ازیں خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور سے کرم کے معاملے پر قائم گرینڈ جرگہ کے ارکان نے ملاقات کی ہے جس میں اس مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات اور دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

SEE ALSO: کرم میں مسافر گاڑیوں پر فائرنگ: 'وہ لمحات کسی بھی طرح قیامت سے کم نہیں تھے'

سرکاری طور پر جاری بیان کے مطابق جرگے کے اراکین میں سابق وفاقی وزیر پیر نور الحق قادری، سابق سینیٹر صالح شاہ، سابق سنیٹر سجاد خان. سابق وفاقی وزیر جی جی گلاب جمال، سابق گورنر خیبر پختونخوا انجینئر شوکت اللہ، سنیٹر عبد الرزاق اور دیگر شامل تھے۔

اس ملاقات میں اتفاق ہوا کہ گرینڈ جرگے کے ارکان اگلے چند دن میں کرم کا دورہ کرکے فریقین سے بات چیت شروع کرنے کریں گے۔

دوسری جانب وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیرِ صدارت صوبائی کابینہ کے اجلاس میں حکومت کے لائحہ عمل پر بریفنگ دی گئی۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ کرم میں مختلف واقعات میں اب تک 133 افراد ہلاک جب کہ 177 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ مسئلے کے حل کے لیے گرینڈ جرگہ تشکیل دیا گیا۔ یہ جرگہ علاقے میں امن کی مکمل بحالی تک وہاں قیام کرے گا۔

کابینہ کو بتایا گیا کہ مالی امداد اور معاوضوں کے لیے 38 کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر مزید فنڈز بھی جاری کیے جائیں گے۔

اسی دوران وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ ضلع کرم کا مسئلہ دہشت گردی نہیں ہے۔ بعض عناصر دو فرقوں کے لوگوں میں نفرتیں پھیلا رہے ہیں۔ مقامی عمائدین ایسے شر پسند عناصر کی نشاندہی میں تعاون کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے عناصر دہشت گرد ہیں اور ان کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کی آمد و رفت کے لیے شاہراہ کو محفوظ بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔