بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے قلب میں واقع پارلیمنٹ ہاؤس کے نزدیک راشٹرپتی بھون (ایوانِ صدر) سے انڈیا گیٹ تک تین کلومیٹر کی ایک سڑک ہے جسے راج پتھ کہا جاتا ہے۔ عام دنوں میں سیاح اور گھومنے پھرنے کے شوقین افراد یہاں نظر آتے ہیں لیکن آج کل اس سڑک پر سیکڑوں مزدوروں کا راج ہے اور مسلسل کھدائی کا کام چل رہا ہے۔
یہ مزدور وزیرِ اعظم نریندر مودی کے 'ڈریم پروجیکٹ' سینٹرل وِسٹا کی تکمیل میں مصروف ہیں۔
حالاں کہ نئی دہلی میں لاک ڈاؤن نافذ ہے اور لازمی خدمات کو چھوڑ کر ہر قسم کی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے، لیکن اس تعمیراتی کام پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے اور یہاں کام معمول کے مطابق جاری ہے۔
مرکزی حکومت نے اس تعمیراتی کام کو لازمی خدمات کے زمرے میں شامل کر دیا ہے اور دہلی پولیس نے اشیا اور مزدوروں کو لانے لے جانے کے لیے 180 گاڑیوں کے استعمال کی اجازت دی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت جب دارالحکومت نئی دہلی کے اسپتال کرونا وائرس کے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں اور بہت سے مریض آکسیجن اور ضروری ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے انتقال کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان حالات میں بھی حکومت کی پہلی ترجیح 'سینٹرل وسٹا' ہی ہے۔
واضح رہے کہ بھارت میں گزشتہ کئی روز سے کرونا وائرس سے یومیہ چار ہزار سے زائد اموات رپورٹ ہو رہی ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ ہر روز تین لاکھ سے زائد افراد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہو رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کے بقول اس سب کے باوجود مودی حکومت اس منصوبے کو تعطل میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
سینٹرل وِسٹا ہے کیا؟
'سینٹرل وسٹا' بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت کا ایک منصوبہ ہے جس کا بجٹ 20 ہزار کروڑ یعنی 200 ارب روپے ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد راشٹرپتی بھون (ایوانِ صدر)، پارلیمنٹ ہاؤس اور انڈیا گیٹ کے درمیان اس پورے علاقے کا نقشہ تبدیل ہو جائے گا۔ گویا نئی دہلی میں ایک نیا 'منی شہر' وجود میں آجائے گا۔
یہ پورا علاقہ کافی بڑا ہے جس میں 'کناٹ پیلس' اور آس پاس کی دیگر رہائشی کالونیاں بھی شامل ہیں۔ اس علاقے کا نقشہ انگریز دورِ حکومت میں برطانوی آرکیٹیکٹ ایڈون لوٹینز نے تیار کیا تھا۔ اسی لیے اس علاقے کو 'لوٹینز زون' بھی کہا جاتا ہے۔
بھارت کا موجودہ پارلیمنٹ ہاؤس بھی اسی معمار نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس کی تعمیر تقریباً ایک صدی قبل 1921 سے 1927 کے درمیان ہوئی تھی۔
'سینٹرل وِسٹا' کے تحت پارلیمنٹ کی نئی عمارت تعمیر ہو گی جو مثلث نما ہو گی۔ اس عمارت میں 1200 سے زیادہ اراکینِ پارلیمنٹ کی گنجائش ہو گی۔ فی الحال لوک سبھا اور راجیہ سبھا یعنی بھارت کے ایوانِ بالا اور زیریں کے اراکین کی مجموعی تعداد 793 ہے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ ہاؤس چوں کہ کافی پرانا ہو چکا ہے اور بعض اوقات اس میں کہیں کہیں مرمت بھی کرانا پڑتی ہے، لہٰذا اس کی مضبوطی پر بھی اب شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی تعمیر کے بعد پرانی عمارت کو میوزیم میں تبدیل کر دیا جائے گا اور راشٹرپتی بھون کے عالی شان مغل گارڈن کو بھی کسی اور مصرف میں لایا جائے گا۔
رپورٹس کے مطابق راشٹرپتی بھون، انڈیا گیٹ اور اس کے سبزہ زار پر نریندر مودی کے دورِ حکومت میں تعمیر کیا جانے والا 'نیشنل وار میموریل' جوں کا توں برقرار رکھا جائے گا جب کہ کنوینشن سینٹر 'وگیان بھون' کی عمارت کو مسمار کر دیا جائے گا۔
نائب صدر، وزیرِ اعظم اور وزرا کی رہائش گاہیں
منصوبے کے تحت وہاں نائب صدر اور وزیرِ اعظم کی مستقل رہائش گاہیں تعمیر کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ ایک مشترکہ سینٹرل سیکریٹریٹ بھی ہو گا۔ موجودہ ساؤتھ بلاک اور نارتھ بلاک، جہاں متعدد وزارتوں کے دفاتر قائم ہیں، کی حیثیت تبدیل ہو جائے گی۔
نائب صدر اور وزیرِ اعظم کی رہائش گاہوں کی تعمیر بالترتیب مئی 2022 اور دسمبر 2022 تک مکمل ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ سال 2022 بھارت کی آزادی کا 75 واں سال ہو گا۔
اس علاقے میں تمام مرکزی وزرا کی رہائش گاہیں بھی تعمیر کی جائیں گی اور آس پاس کی متعدد عمارتوں کی تزئین و آرائش بھی کی جائے گی۔
موجودہ سیکریٹریٹ میں صرف 22 وزارتوں کے دفاتر ہیں جن میں 41 ہزار ملازم کام کرتے ہیں۔ مذکورہ منصوبے کے تحت تمام موجودہ 51 وزارتوں کے دفاتر ایک ہی جگہ پر قائم ہو جائیں گے۔
بھارت میں وزیرِ اعظم کا کوئی علیحدہ دفتر نہیں ہے۔ ملک کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو سے لے کر نریندر مودی تک سب اپنی سرکاری رہائش گاہ سے ہی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے ہیں جسے پرائم منسٹر ہاؤس کہا جاتا ہے۔
وزیرِ اعظم کی موجودہ رہائش گاہ نئی دہلی کے لوک کلیان مارگ روڈ پر سات نمبر بنگلے میں ہے۔ پہلے اس سڑک کا نام ریس کورس روڈ تھا۔ لیکن وزیرِ اعظم مودی کے دور میں بدل کر اسے 'لوک کلیان مارگ' کر دیا گیا۔
منصوبے پر حزبِ اختلاف کی تنقید
بھارت کی حزبِ اختلاف حکومت کے اس منصوبے پر شدید تنقید کر رہی ہے۔ سب سے جارحانہ تنقید کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی کی جانب سے ہو رہی ہے جو کئی بار اس منصوبے کی مخالفت کر چکے ہیں۔
راہول گاندھی نے 11 مئی کو ایک بار پھر منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں وزیرِ اعظم مودی سے کہا کہ "آپ سینٹرل وِسٹا دکھانے والا گلابی چشمہ اتاریں اور دریاؤں میں تیرتی لاتعداد لاشوں، اسپتالوں کے سامنے مریضوں کی میلوں طویل قطاروں اور عوام سے چھینے جا رہے ان کے جینے کے حق پر نظر ڈالیں۔"
راہول گاندھی نے مزید لکھا کہ وزیرِ اعظم کے نئے گھر اور اس پورے منصوبے پر 200 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ اتنی رقم میں کرونا ویکسین کی 62 کروڑ خوراکیں، 22 کروڑ ریمڈیسیور انجیکشن، 10 لیٹر کے تین کروڑ آکسیجن سلنڈر اور 13 آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) بن جائیں گے۔
کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور پارٹی کی جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی بھی کئی بار اس منصوبے کی مخالفت اور اسے فوراً روکنے کا مطالبہ کر چکی ہیں۔
کانگریس سمیت حزبِ اختلاف کی 12 جماعتوں اور چار وزرائے اعلیٰ نے بدھ کو وزیر اعظم کے نام ایک مشترکہ خط میں 'سینٹرل وِسٹا' کو روکنے اور اس کے لیے مختص رقم کو آکسیجن اور ویکسین کی تیاری پر خرچ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسکالروں اور فن کاروں کا مشترکہ بیان
بھارت کے انگریزی روزنامے 'دی ہندو' کی ایک رپورٹ کے مطابق سرکردہ اسکالروں، فن کاروں اور میوزیم کے ماہرین نے ایک بیان میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں صحت ایمرجنسی اور کرونا وبا کے پیشِ نظر منصوبے کو بلا تاخیر روک دیا جائے۔
بھارت اور جنوبی ایشیا کے امور پر کام کرنے والے تاریخ دانوں اور عجائب گھروں کے ماہرین کی عالمی برادری نے 'سینٹرل وِسٹا' کے لیے نیشنل میوزیم، نیشنل آرکائیوز اور اندرا گاندھی نیشنل سینٹر فار آرٹس کی عمارتوں کو منہدم کرنے کے منصوبے پر بھی اپنی تشویش ظاہر کی اور ان تہذیبی و ثقافتی اداروں کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان عمارتوں کی تباہی سے بھارتی تہذیب و ثقافت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
تاریخ دانوں کا بات کرنے سے انکار
وائس آف امریکہ نے کئی تاریخ دانوں سے اس معاملے پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن سب نے اسے سیاسی معاملہ قرار دیتے ہوئے اس پر رائے زنی سے گریز کیا۔
تاہم آثار قدیمہ کے ایک ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد مسلم شناخت کی حامل کئی عمارتیں یا تو منہدم ہو جائیں گی یا ان کی حیثیت ختم ہو جائے گی۔
ان کے مطابق سینٹرل وِسٹا کے نقشے میں نہ تو سابق صدر فخر الدین علی احمد کے مزار کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہی انڈیا گیٹ پر واقع تاریخی مسجد کا جسے پانی والی مسجد کہتے ہیں۔ ان کے بقول متعدد وزارتوں کے مرکز کرشی بھون کے پاس واقع ایک مسجد کا بھی منصوبے میں کوئی ذکر نہیں ہے کہ اس کا کیا ہوگا۔ واضح رہے کہ بھارت کے سابق صدر فخر الدین علی احمد کا مزار پارلیمنٹ ہاؤس کے نزدیک واقع جامع مسجد کے بالکل عقب میں ہے۔
دہلی کی تاریخ کے ماہر مصنف اور کالم نگار عظیم اختر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انگریزوں نے پارلیمنٹ ہاؤس، راشٹرپتی بھون، انڈیا گیٹ اور کناٹ پیلس کے پورے علاقے کو بڑی خوب صورتی سے ڈیزائن کیا تھا۔ لیکن سینٹرل وِسٹا کی تکمیل کے بعد یہ ساری خوب صورتی مسخ ہو جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ اس علاقے میں زیرِ زمین بھی تعمیراتی کام چل رہا ہے اور زمین کے اوپر بھی۔ سیاحوں کے لیے انتہائی مقبول کناٹ پیلیس اور جن پتھ کا علاقہ اس کی زد میں آ رہا ہے اور دوسری متعدد تاریخی عمارتیں اور مقامات بھی۔ لہٰذا نئی تعمیرات کے بعد سیاحوں کے لیے علاقے کی کشش ختم ہو جائے گی۔
حکومت کا مؤقف
بھارت کی مرکزی حکومت نے منصوبے پر تنقید کرنے پر حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس پر نکتہ چینی کی ہے۔
ہاؤسنگ اور شہری امور کے مرکزی وزیر ہردیپ سنگھ پُری نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ سینٹرل وِسٹا پروجیکٹ پر کانگریس کا اعتراض عجیب و غریب ہے۔ اس منصوبے پر 20 ہزار کروڑ روپے خرچ ہوں گے اور یہ کئی برسوں پر محیط پروگرام ہے۔ جب کہ حکومت نے ویکسین کے لیے اس سے دوگنی رقم مختص کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف اسی سال صحتِ عامہ پر حکومت کا بجٹ تین لاکھ کروڑ یعنی 3000 ارب روپے ہے۔ ہم اپنی ترجیحات جانتے ہیں۔
ہردیپ سنگھ پُری نے مزید کہا کہ کانگریس اس معاملے پر دہرا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس نے یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس (یو پی اے) کے زمانے میں ہی پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی ضرورت بتائی تھی۔ اس وقت کی حکومت نے شہری ترقی کی وزارت کو اس سلسلے میں ایک مکتوب بھی ارسال کیا تھا۔
قانونی جنگ
یاد رہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے 10 دسمبر 2020 کو پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔ اس وقت سپریم کورٹ میں اس کے خلاف اپیل دائر کر کے سنگِ بنیاد کی تقریب روکنے کی درخواست کی گئی تھی۔ لیکن عدالت نے اس پر کوئی قدغن لگانے سے انکار کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت دی تھی۔
اب ایک بار پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا ہے۔ ایک مترجم انیا ملہوترہ اور ایک تاریخ داں اور فلم ساز سہیل ہاشمی نے سپریم کورٹ کے انکار کے بعد دہلی ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق درخواست گزاروں کے وکیل سدھارتھ لوتھرا ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ کرونا کے موجودہ حالات کے پیش نظر اگر سینٹرل وِسٹا کے پروجیکٹ کو چھ ہفتوں کے لیے ٹال دیا جاتا ہے تو کچھ نہیں بگڑے گا۔ جب انڈین پریمیئر لیگ کو ملتوی کیا جاسکتا ہے تو اس منصوبے کو کیوں نہیں؟
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ صحت کی ایسی بحرانی صورتِ حال میں کوئی تعمیر کس طرح لازمی خدمات کے زمرے میں آ سکتی ہے۔ وہاں کام کرنے والوں کو کووِڈ کا خطرہ لاحق ہے اور نظامِ صحت پر اس کے منفی اثرات ہوں گے۔
دہلی ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے درخواست کی گئی کہ اس پٹیشن کو خارج کیا جائے اور پٹیشنرز پر جرمانہ عائد کیا جائے۔ یہ لوگ ابتدا سے ہی کسی نہ کسی بہانے سے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
درخواست گزاروں کی اس دلیل پر کہ وہاں کام کرنے والے مزدوروں کو کرونا کا خطرہ ہے، حکومت نے اپنے تحریری جواب میں کہا کہ دہلی میں لاک ڈاؤن نافذ ہونے سے پہلے سے ہی وہاں پر 400 مزدور کام کر رہے ہیں اور وہیں پر ان کی رہائش کا انتظام ہے۔
لیکن بعض میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مزدوروں کو بذریعہ بس صبح لایا جاتا ہے اور شام کو انہیں واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ مزدور سرائے کالے خاں اور قرول باغ سمیت کئی علاقوں سے آتے ہیں۔
دوسری جانب حکومت نے اس جگہ کی فوٹوگرافی اور ویڈیوگرافی پر پابندی عائد کر دی ہے۔