چنئی پیاسا ہے!

چنئی جسے ماضی میں مدراس کہا جاتا تھا، وہاں پانی کم یاب ہے۔ لوگ پانی کے حصول کے لیے دور دور کا سفر طے کرتے ہیں۔ ایک شخص اپنے خاندان کے ساتھ پانی بھرنے واٹر ڈپو جارہا ہے۔ اس کے ٹھیلے پر مٹکے رکھے ہوئے ہیں۔

ایک کروڑ کی آبادی والا شہر چنئی ریاست تامل ناڈو کا دارالحکومت ہے۔ شہر تیزی سے ترقی کررہا ہے اور تعمیرات روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ وافر مقدار میں قدرتی پانی دستیاب نہ ہونے سے تعمیرات پر بھاری ٹیکس عائد ہیں۔ حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ سمندر کے کھارے پانی کو پینے کے قابل بنانے پر خطیر رقم خرچ کرے۔
 

پانی کی سپلائی ریل کے ذریعے کی جا رہی ہے جس کے لیے سیکڑوں کلو میٹر دور جانا پڑتا ہے۔ ٹرین کی حفاظت کے لیے فوجی تعینات کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں لگے نل خشک پڑ گئے ہیں جس کے سبب وہ غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

 

پانی کی کمی کا براہ راست اثر کاروباری سرگرمیوں پر پڑ رہا ہے۔ کاروبار آئی ٹی کا ہو یا چائے کی معمولی دکان، ہر قسم کی تجارت پانی کی کمی سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔ مزدوروں کو چھٹیاں دے دی گئی ہیں جب کہ روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کو پانی کے حصول کے لیے ملازمت سے چھٹی لے کر گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔

 

 

شہر کے اسٹاک ایکسچینچ کے ارکان کا کہنا ہے کہ چنئی میں پانی کے بحران سے پیداواری شیڈول متاثر ہوا ہے اور اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ پانی مہنگے داموں خریدنا پڑتا ہے اور اس بحران کے خاتمے کا کوئی فوری حل نظر نہیں آتا۔
 

 

چنئی میں 41 سالہ خاتون دیوی اپنی پڑوسی سے پانی آنے کے انتظار میں محو گفتگو ہیں۔ ان کا مکان چنئی کی ایک گنجان بستی میں واقع ہے جہاں پانی سپلائی نہیں ہوتا اور ٹینکرز منگوانے پڑتے ہیں۔
 

 

مختلف اداروں کو اپنے طور پر چنئی کے باہر سے پانی منگوانے کے لیے 30 فیصد زیادہ اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ ٹینکرز سے پانی سپلائی کے لیے ملازمین رکھنا پڑ رہے ہیں۔ چنئی چیمبر آف کامرس کے سیکریٹری جنرل کے سرسوتی کا کہنا ہے کہ پانی کے ری سائکلنگ سسٹم از خود لگانے پڑ رہے ہیں جن پر بھاری رقوم خرچ کرنا پڑتی ہیں۔  
 

چنئی کے شہری ہر روز پانی کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ سرگرداں رہتے ہیں۔ لوگوں کو دن بھر واٹر ٹینکرز کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھی رات بھی پانی کے انتظار میں کاٹنا پڑتی ہے۔

پانی کی کمی لوگوں پر نفسیاتی دباؤ بھی بڑھا رہی ہے ۔ٹینکر سے پانی کے حصول میں لوگ جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور پانی نہ ملنے کے خدشات پر اکثر و بیشتر اچھے پڑوسیوں میں بھی تکرار اور تلخ کلامی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

ٹینکر سے پانی بھرتی خواتین اور لائن میں لگے برتن۔

اسٹاک ایکسچینج کے سیکریٹری جنرل کے سرسوتی کا کہنا ہے کہ ٹینکرز سے پانی خریدنا مسئلے کا عارضی حل تو ہوسکتا ہے لیکن مستقل ایسا کرنا ناممکن ہے۔

چنئی میں اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں بارش ہوتی ہے لیکن حالیہ سالوں میں ماحولیاتی تبدیلی سے بارشوں کا نظام بگڑ گیا ہے جب کہ انسان بھی اس نظام کی تباہی کے خود ذمے دار ہیں۔ پچھلے 30 سالوں میں شہر کی آبادی تین گنا ہو گئی ہے۔ بڑھتی آبادی سے وسائل کم اور مسائل زیادہ ہو رہے ہیں۔ وسائل کی کمی بھی پانی کے بحران کا سبب ہے۔

 

 

چنئی کا ایک بچہ سرکاری نل پر رکھے پلاسٹک کے مٹکوں کے قریب کھڑا پانی کا انتظار کررہا ہے۔ خواتین اور بچے مردوں کے مقابلے میں زیادہ پانی بھرتے ہیں۔

 شہر میں پانی کی تقسیم کا نظام بھی بوسیدہ ہوگیا ہے۔ یہ نظام 1870 میں قائم ہوا تھا اور تب سے اب تک یہی نظام رائج ہے حالانکہ زندگی کے تمام شعبوں میں تبدیلی آگئی ہے اور ان میں وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی ہو چکی ہے لیکن پانی کا نظام اب تک وہی صدیوں پرانا ہے۔